Azadi e Sahafat, Jamhuriat Ki Bunyad Aur Riyasti Zimmadari
آزادیِ صحافت، جمہوریت کی بنیاد اور ریاستی ذمہ داری

دنیا بھر میں ہر سال 2 نومبر کو "صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن" منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد اُن صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے سچ اور حق کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی اور اُن تمام کوششوں کو اجاگر کرنا ہے جو آزادیِ اظہار اور ذمہ دارانہ صحافت کے فروغ کے لیے کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس دن کی مناسبت سے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے پیغامات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ آزاد صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ اور جمہوریت کی روح ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بجا طور پر کہا کہ آزاد، باخبر اور ذمہ دار صحافت ایک مضبوط اور شفاف پاکستان کی ضمانت ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن معاشروں میں صحافت کو دبایا گیا، وہاں جمہوریت کمزور اور آمریت مضبوط ہوئی۔ دوسری جانب جہاں قلم کو آزادی ملی، وہاں عوامی شعور بیدار ہوا، ادارے مضبوط ہوئے اور احتساب کا کلچر پروان چڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے آزادیِ صحافت کو ریاستی پالیسی کا بنیادی جزو قرار دیا۔
دنیا میں آزادیِ صحافت کی تحریک کوئی نئی بات نہیں۔ اٹھارہویں صدی میں یورپ میں جب مطلق العنان بادشاہت کے خلاف عوامی بیداری شروع ہوئی تو سب سے پہلے صحافیوں اور مصنفین نے اس جدوجہد کی قیادت کی۔ فرانس کا انقلاب، امریکی آزادی کی تحریک، یا برصغیر میں تحریکِ پاکستان ہر مرحلے پر اہلِ قلم نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ پاکستان کی تاریخ بھی اس جدوجہد سے خالی نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک، صحافیوں نے کبھی مارشل لا کے خلاف، کبھی سنسرشپ کے خلاف اور کبھی سیاسی جبر کے خلاف اپنے قلم سے لڑائی لڑی۔ کئی اہم نام اس جدوجہد کی روشن مثالیں ہیں جنہوں نے سچ کے لیے خطرات مول لیے۔
وزیرِ اعظم کا یہ کہنا کہ "صحافیوں کے خلاف تشدد، دھمکی یا انتقام پر مبنی جرائم دراصل آزادیِ اظہار پر حملہ ہیں " ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا بھر میں سینکڑوں صحافی قتل یا لاپتہ کیے گئے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ان میں سے 80 فیصد کیسز میں مجرموں کو سزا نہیں ملی۔ پاکستان میں بھی کئی ایسے مقدمات تاحال التوا میں ہیں جن میں مقتول صحافیوں کے اہلِ خانہ انصاف کے منتظر ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ریاست کی ذمہ داری سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم کا یہ عزم کہ حکومت ایسے تمام اقدامات کرے گی جن سے مؤثر تفتیش، انصاف کی فراہمی اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی ممکن ہو سکے، قابلِ تحسین اور امید افزا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قانون سازی کافی نہیں، بلکہ اس پر عمل درآمد، تفتیشی اداروں کی استعداد میں اضافہ اور عدالتی نظام کی تیزی بھی اتنی ہی اہم ہیں۔
دنیا کے ہر جمہوری معاشرے میں میڈیا کو "چوتھا ستون" کہا جاتا ہے۔ پارلیمان قانون بناتی ہے، عدلیہ انصاف فراہم کرتی ہے، انتظامیہ عمل درآمد کرتی ہے اور میڈیا عوام کو باخبر رکھتا ہے ان چاروں ستونوں کے بغیر ریاست کا ڈھانچہ نامکمل ہے۔ آزاد میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔ اگر یہ پل ٹوٹ جائے تو بداعتمادی جنم لیتی ہے، افواہیں پھیلتی ہیں اور جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے آزادیِ صحافت صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مشترکہ مفاد ہے۔
دنیا بھر میں کئی ممالک نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنائے ہیں۔ سوئیڈن نے 1766 میں دنیا کا پہلا قانونِ آزادیِ اظہار منظور کیا۔ امریکہ نے آئین کے پہلے ترمیمی آرٹیکل کے ذریعے میڈیا کی آزادی کو بنیادی حق قرار دیا۔ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا میں صحافیوں پر حملوں کو ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور یونیسکو نے بھی 2013 میں باقاعدہ طور پر 2 نومبر کو "End Impunity for Crimes Against Journalists Day" قرار دیا تاکہ دنیا بھر میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔
پاکستان میں بھی "پریس فریڈم ایکٹ"، "رائٹ ٹو انفارمیشن" اور "جرنلسٹس پروٹیکشن بل" جیسے قوانین اس سمت میں مثبت پیش رفت ہیں، مگر ان پر عمل درآمد اور ادارہ جاتی ہم آہنگی ابھی مطلوب ہے۔
آزادیِ صحافت کا مطلب یہ نہیں کہ میڈیا غیر ذمہ دار ہو جائے۔ ہر آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم ہے۔ صحافت کو سچائی، غیر جانبداری اور عوامی مفاد کے اصولوں سے وابستہ رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے غیر منظم پھیلاؤ نے صحافتی معیارات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس تناظر میں وزیرِ اعظم کی یہ بات اہم ہے کہ "آزاد، باخبر اور ذمہ دار صحافت ہی جمہوریت کی بنیاد ہے"۔ یعنی آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا توازن برقرار رکھنا ہی اصل کامیابی ہے۔
وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں عالمی برادری، میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے فروغ کے لیے کردار ادا کریں۔ یہ اپیل محض سفارتی بیان نہیں بلکہ عالمی سطح پر یکجہتی کی دعوت ہے۔ جب کسی ملک میں ایک صحافی قتل ہوتا ہے تو اس کی گونج سرحدوں سے پار سنائی دیتی ہے، کیونکہ سچ کی آواز کسی ایک ملک یا قوم کی ملکیت نہیں۔ اس لیے بین الاقوامی تعاون، تربیتی پروگرامز اور تحقیقاتی اشتراک اس جدوجہد کا لازمی جزو ہیں۔
آزادیِ صحافت ایک ایسا چراغ ہے جو معاشروں کو ظلمت سے نکال کر شعور و آگہی کی روشنی میں لے جاتا ہے۔ اس چراغ کو بجھنے نہ دینا ریاست، حکومت اور عوام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے بیانات محض رسمی نہیں بلکہ ایک عزم کی تجدید ہیں کہ پاکستان میں سچ بولنے والوں کی آواز کبھی خاموش نہیں ہوگی۔
اگر ہم واقعی ایک شفاف، جمہوری اور منصف معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس سچائی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ قلم کی حرمت، جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہے۔ آزاد صحافت کی حفاظت دراصل پاکستان کے مستقبل کی حفاظت ہے۔ یہی پیغام ہمیں اس دن اور ہر دن یاد رکھنا چاہیے۔

