Imran Khan Ke Bare Main Chand Khush Gumanian
عمران خان کے بارے میں چند خوش گمانیاں
ہماری سیاست کے تیسرے اہم ستون، نوجوانوں کے نمائندہ جماعت کے ایک بزرگ لیڈر عمران خان کے بارے میں ہمارے ایک دوست نے ایک خوبصورت تحریر کی۔ جس میں ان کے کارناموں اور ان کی سیاسی اور نجی غلطیوں ("حماقتوں ") کا تجزیہ کیا گیا۔ ان کے سوشل ورک کی تعریف نہ کرنے والا ان کا سیاسی ناقد نہیں یقینا، ذاتی دشمن کہلائے گا۔ لیکن ان کی سیاسی غلطیوں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کو ملک و قوم کی خاطر قربانی قرار دینا جائز نہیں۔ میں اسے اپنے دوست کی خوش گمانی سمجھتا ہوں۔ خوش گمانی اس لئے کہا کہ اتنی ساری غلطیاں ایک بندہ کر رہا ہے۔ فاش غلطیاں۔ امید اس سے یہ ہے کہ وہ باگ ڈور سنبھالے گا تو کوئی غلطی نہیں کرے گا کہ وہ ان دو کمزوریوں کے باوجود ان سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے (مکمل اقتدار شائد تمام صوبوں میں) تو "اسوقت" وہ کام صحیح کریں گے۔ آپ اگر ایک احمق آدمی (حماقتوں سے ماخذ) جو کہ اپنا واضح نظر آنے والا فائدہ نہیں سمجھ پا رہا جو اسے منزل کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ملک کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں آپ کی خوش گمانی پہ اعتراض کرنے والے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ خوش گمانیاں سے نہیں زیرک لیڈر تلاش کرنے سے ملک آگے بڑھا کرتے ہیں۔
خان صاحب کو ایک سٹیٹس کو کا مخالف اور سماج سے لڑ جانے والا جنگجو سمجھنا، میر ے نزدیک ایک خوش فہمی ہے۔ خان صاحب ایک مہرہ ہیں جو کہ دھرنے کے دوران واضح ہو چکا ہے۔ اس دھرنے کا کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔ عمران خان کو بھی نہیں پر آرمی کو سول گورنمنٹ کے انڈر لانے کا جو خواب نواز شریف لے کہ چل رہا تھا وہ اب اس نے بھی ذہن سے نکال دیا ہے۔ یہ فائدہ ہوا دھرنے کا۔ اور ایک سسٹم مخالف جمہوریت پسند آدمی کبھی اس نتیجے کے لئے اپنی توانائیاں مستعا رنہیں دے گا۔
اگر یہ سمجھا جائے کہ خان صاحب اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اسٹیبلشمینٹ کے ہاتھوں بیوقوف بن گئے یا استعمال ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور خیال یہ کہ وہ مہرۃ نہیں ہیں۔ پھر مہرہ کی کوئی اور تعریف میرے ذہن میں نہیں آتی۔ اپنے فائدہ کے لئے کوئی آپ کو استعما ل کرے۔ آپ اپنے چھوٹے فائدے کے لئے ہو جائیں استعمال۔ کیا اسے مہرہ ہی نہیں کہیں گے؟
پشاور اے پی ایس سکول کا واقعہ با عزت واپسی کا ذریعہ بن گیا۔ ورنہ نتیجہ کچھ نہیں نکلنا تھا۔ اور اشارہ دینے والوں نے پہلے دن واضح بتا دیا تھا کہ تم نمبر پورے نہں کر سکے۔ وہ تو خان صاحب نے اپنی ضدی طبیعت سے مواقع پیدا کیے پر میوزک شو پہ کتنے دن کام چلتا خان صاحب کے مقابلے میں نواز شریف کو عقل و خرد سے بیگانہ سمجھنا، خان صاحب سے آپ کی بے پایاں محبت کا ثبوت تو ہو سکتا ہے، حقیقت کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ایسی سوچ کا اظہار کرنے والے آپ کو اگلی سانس میں ہی نواز شریف پہ الزام ایک انوکھے انداز سے دھاندلی کا لگاتےنظر آتے ہیں۔ مطلب ایک بے عقل آپ سے ہر دفعہ ہاتھ کر جاتا ہے۔ تو خان صاحب کی دانش کو بے وقوفی کی کون سے گہرائی میں تصور کیا جائے۔
میرا ایما ن ہے اور جمہوریت کا تقاضہ بھی کہ میں یہ سمجھوں کہ ہر آدمی اپنی عقل کے مطابق صحیح فیصلہ کرتا ہے۔ کسی کی حب الوطنی یا نیت پہ شک نہیں ہے۔ ہاں اختلاف رائے جائز ہے۔ ہم اپنی عقل کے مطابق صحیح فیصلہ کر چکے ہیں اور ہمیں حالات بہتری کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک سادہ سا تجزیہ ہے جو میں ذاتی حیثیت میں کرتا ہوں۔ آپ کا اختلاف رائے کا میں حق تسلیم کرتا ہوں، ایک مہینے کا سودا سلف میں زرداری صاحب کے دور میں جتنے روپے کا لاتا تھا۔ وہ آج اتنے کا یا شائد اس سے کم میں آتا ہے۔ پچھلے 3 سال میں کوکنگ آئل، آٹا اور چینی کی قیمت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اس سال سردیوں میں بڑے عرصے بعد ہم نے پورے سیزن میں گیس کے چولہے پہ روٹی پکائی ہے۔ پٹرول 100ۤ سے اوپر تھا۔ اب 64 ہے۔ سی این جی۔ 92 پہ پہنچ گئی تھی۔ آج ڈلوائی ہے 49 روپے اور کچھ پیسے ہے۔ لوڈ شیڈنگ 6 گھنٹے ہے۔
گاوں کے لوگوں کو بھول ہی گیا تھا کہ بجلی ہوتی کیا ہے۔ میں ایک ایک چیز کا نہیں کہ سکتا کہ سستی ہوئی ہے۔ دالیں مہنگی ہوئی ہیں۔ بالخصوص دال ماش۔ تعلیم پہ توجہ دے رہے ہیں میرا تعلق خوشاب کے ایک گاوں سے ہے اور وہاں کے ہائر سیکنڈری سکول مین 30 سے اوپر کمپیوٹر کی لیب ہے۔ ہاں بہتری کی بے انتہا گنجائش ہے۔ صحت میں بڑے ہسپتالوں کی تعمیر کر رہے ہیں لیکن پرانے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں پہ توجہ کم ہے۔ دینی چاہیے۔ آپ روالپنڈ ی میں انسٹیٹوٹ آف کارڈیولوجی دیکھ لیں۔ کچھ پریشانی کم ہو گی۔
کسی حکومت کو ہٹانے کا وہی طریقہ اختیا ر کیا جانا چاہیے جو آئین میں درج ہے۔ پرانے ہٹنے کے لئے ہی ہوتے ہیں پر ہٹانے کا طریقہ وہی ہونا چاہیے جو آپ خود برداشت کر سکیں۔ 70 سال کا یہ سبق ہے جس نے یہ نہیں سیکھا وہ ہمیں شائد آگے بڑھنے سے روکنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ آج خان صاحب کی محبت میں سسٹم کی ڈس کانٹینیویشن پہ تیار ہو جائیں گے۔ ایک ایکسیپشن کے طور پہ تو عرض یہ ہے کہ ایکسیپشن پھر ان کی باری بھی چلے گی۔۔ بار بار چلے گی جیسے پچھلے 70 سال سے چل رہی ہے اور ہم سو جوتے اور سو پیاز کے چکر میں خجل ہوتے رہیں گے۔
نواز شریف آرمی کوسول گورنمنٹ کے کنٹرول میں لانے کا خواب لے کہ آئے تھے جو اب شائد ان کے پلانز کا حصہ نہیں ہے۔ شائ میر ے دوستوں کے لئے یہ بات قابل ہضم نہیں ہے کہ نواز شریف ایسا سوچ سکتا ہے۔ ایسا صرف خان صاحب سوچ سکتے ہیں کیوں کہ آرمی کے پاس اس کے خلاف ثبوت نہیں۔ سو وہ عمران خان کو بلیک میل نہیں کر سکتے۔ اس تجاہل عارفانہ پہ صرف ہمدردی کی جا سکتی ہے۔
ایک عرض اور۔۔۔ اس پہ اعتراض ہے کہ آرمی کے باس عمران کو بلیک میل کرنے کے لئے کچھ نہیں۔ بھائی آرٹیکل 62، 63 شائد کبھی بھی تلوار نہیں بنے گا۔ ماسوائے عمران خان صاحب کی ورارت عظمٰی میں۔ گستاخی معاف۔ جو غلطی ان سے ہو چکی ہے جس سے وہ مکر بھی رہے ہیں وہ ان کے بلیک میل ہونے کے لئے کافی ہے۔ خان صاحب جن ملکوں کی مثال دیتے ہیں کیا بتا سکتے ہیں کہ وہاں ایسا آدمی وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ ؟ صرف عمران خان صاحب خلافت راشدہ کو ایکسپلائٹ نہیں کرتے۔ بہت سے مولوی بھی مل جائیں گے۔ اور اس اسلامی دھرنے کے آگے وزیراعطم عمران خان نہیں ٹک سکے گا-