Dohra Meyaar
دوہرا معیار
انسان میں ایک خاص قسم کا مزاج پایا جاتا ہے، جس کے تحت ہم اپنی غلطیوں کی توجیح دینا اور دوسرے کی غلطیوں کو معاف نہ کرنا عین قانون اور اخلاق کے مطابق سمجھتے ہیں۔ یہ فطرت ہے کہ آپ اپنی غلطی کے لئے بہانہ تراشتے ہیں البتہ دوسرے کے لئے آپ پہ یہ بار نہیں کہ آپ اس کی غلطی کے لئے کوئی عذر تلاش کریں۔ ہم پاکستانی بھی اس انسانی مزاجی مجبوری کا شکار ہیں بلکہ ہماری مجبوری کسی حد تک زیادہ زیادہ ہے، کہ ہم اپنے عمل کو کبھی بھی غلط نہیں سمجھتے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہم غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ اسی لئے ہم پر ذمہ داری ذرا زیادہ ہےجس کو ہم خلوص نیت سے نبھا رہے ہیں۔
ہمارے ملک کو قائد اعظم نے اسلام کی تجربہ گاہ کہا اور اس معاملے میں ہم نے ان کو ذرا برابر شرمندہ نہیں کیا۔ ہم نے اس لیبارٹری میں ہر تجربہ کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی بھی تجربے کا نتیجہ کہیں ہمیں آگے کی طر ف نہ لے بڑھے۔ سو ہمارے ملک میں کبھی کوئی نظام بن ہی نہ سکا۔ آج تک ہم ایک بھنور میں پھر رہے ہیں، ایک دائرہ ہے جس کا اخیر تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر آنے والی نسل پھر سے وہ تجربات دہرانے کی کوشش کر رہی ہے جو پہلے والی نسل کر کے ناکام ہو چکی۔ آگے بڑھنے کی بجائے ترقی معکوس کا شکا ر بن جاتے ہیں اور ہم ہر دفعہ سکوائر ون یا ایک کا جزر حاصل کر کہ واپس اپنی جگہ پہ ہوتے ہیں۔
پاکستان کے ابتدائی تجربات میں بانی پاکستان کو ان کے پاکستان بنانے کے گناہ کی سزا دینا شامل تھا۔ پھر ہم نے وزیر اعظم قتل کرنا سیکھا، اور چند سال تک سیاستدان اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرتے رہے، اور سیکھتے رہے کہ میوزیکل چئیر کیسے کھیلی جاتی ہے۔ اس کے بعد، ایوب خان نے بتایاکہ دنیا میں یونیورسل اصول "طاقت" ہے۔ ان کے بعد پھر ہر آنے والے افواج پاکستان کے سربراہ کا یہ اولین فرٖض رہا کہ وہ سیاست میں ایک ریفری کا کردار ادا کرے۔ آج کل اس ریفری کا اسم گرامی "تھرڈ امپائر" ہے۔
ہماری فوج نے ملک کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کا فرض اپنے ذمے لئے ہوا ہے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ بجٹ کھانے والے مسلح ادارے کو کوئی یہ بات کیوں نہیں سمجھاتا کہ ان کو اپنا کام کرنا ہے۔ وہ خدائی فوجدار نہیں ہیں۔ کس نے حق دیا آپ کو کہ آپ حکومتیں گرائیں اور بنائیں۔ یہ صد فیصد درست ہے کہ فوج نے ہمارا دفاع کیا اور اکثر ہمارا سر فخر سے بلند کیا لیکن ہم نے بھی بہت دفعہ آپ کی غلطیوں سے آنکھیں چرائی ہیں ۔ آج بھی 90 ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا منظر سامنے آتا ہے تو ہم آپ کا نام نہیں لیتے، بلکہ اسے قومی سانحہ قرار دیتے ہیں ۔ ہم نے کرنل شیر خان شہید کو اپنا قومی ہیرو قرار دیا اور انہیں سب سے بڑا اعزاز دے دیا۔ یہ اور بات ہے کہ کئی دن تک ہم انہیں اپنا ماننے سے انکار کرتے ہوے ان کی نعش لینے سے انکار کرتے رہے۔ یہ بات ہماری قومی غیرت پہ چوٹ لگاتی تو ہے لیکن ہم اسے بھی برداشت کرتے ہوئے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ہمارے حصے کا بجٹ بھی دے دو کیوں کہ یہ ہمارے محافظ ہیں۔
ہماری مدد کے لئے بھی فوج بہت دفعہ آئی، جو بظاہر اس کی ذمہ داری نہیں تھی۔ جب ہم سیلاب میں ڈوبیں تب بھی یہی بچانے آتے ہیں، جب ہم اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوتےہیں تب بھی یہ مسیحا بنتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی، ہمارے ملک کا ایک آیئن ہے جس نے سب کی حدود کا تعین کر دیا ہے اور کوئی اسے عبور نہیں کر سکتا پھر چاہے وہ کوئی سیاستدان ہو یا کوئی جرنیل۔ آپ، میں اور ہم سب اس آئین کے پابند ہیں اور کوئی اس سے بالاتر نہیں ہے۔
دوسری جانب سیاستدانوں پہ لعن طعن اپنی جگہ لیکن آج آپ نیو کلیئر پاور ہیں تو ان سیاستدانوں کی وجہ سے ہیں ۔ پاکستان کی حدود میں توسیع اگر ہوئی تو ایک سیاستدان کے دور حکومت میں اور سیاستدان بھی ایسا کہ جس کو آپ روایتی سیاستدان اور ایک جاگیردارکہیں گے۔ اس ملک کی افواج نے چار جنگیں لڑیں لیکن آج بھی کوئی فوجی یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک انچ بھی زمیں کسی ملک سے لی۔ تیس سال تک فوجی حکومت ہم پہ مسلط رہی اور باقی کے 37 سال سیاسی حکومتیں ان کے خوف میں مبتلا رہیں۔ ہروقت ایک تلوار لٹکی رہتی ہے ہر حکومت کے سر پر۔ فوج کی حیٹیت ایک سپروائزر کی سی بن چکی ہے۔
موجودہ بحران میں اس ملک کے ایک بہت بڑے لیڈر اور ایک بہت بڑے سکالر کے خفیہ ہاتھوں کا آلہ کار ہونے کے اشارے اور گواہیاں مل رہی ہیں۔ حیرت کوایک طرف رکھتے ہیں کہ عمران خان جو بلندیوں کی طرف گامزن تھے ان کو کسی کے کندھے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ یہ بات البتہ قابل قدر ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے اب کی بار ایک مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ مجموعی طور پر وہ کچھ سیکھ چکے ہیں۔ یہ سبق ان کومل چکا کہ اب ملک صرف آیئن کے مطابق چلے گا، آیئن سے باہر نہیں۔ فوج کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی عزت اپنے حلف کے مطابق اپنی توجہ دفاع پاکستان پہ رکھنے ہی میں ہے ناکہ پورے ملک کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش میں ۔ بصورت دیگر ابھی وہ وقت زیادہ دور نہیں گزرا جب آپ فوجی وردی میں بازار جانے سے کتراتے تھے۔ آپ کو ایک بار پھر بدنامی کا بار ذمے لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
عمران خان کو جو پذیرائی عوام میں ملی وہ ان کی محنت کا نتیجہ تھی۔ وہ ایک اکیلے بندے کی حیثیت سے پارٹی لے کے سالوں سے چلتے رہے اور پھر وہ وقت بھی آیاکہ عوام کسی بھی مقبول لیڈر کی طرح ان کی طر ف متوجہ ہو چلی اور وہ اس ملک کے ایک بڑے حصے یعنی نوجوانوں کو متحرک کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ ساتھ ہی انہیں ایک صوبے کی حکومت کی ذمےداری مل گئی۔
جب مستقبل کی بہت سی امیدیں ان سے وابستہ ہیں پھر وہ ہمت کیسے ہار گئے؟ کیسے انھوں نے ان غیر جمہوری حکومتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ آپ اگر 76 لاکھ ووٹ لے کے بھی فوج کے سہارے حکومت میں آنا چاہتے ہیں تو اسے آپ کی اپنے اوپر بد اعتمادی سمجھا جائے یا آپ کے ووٹ بینک پہ سوالیہ نشان لگایا جائے؟ کہیں آپ کے اتنے پر اعتماد انداز میں دھاندلی کے الزام کی بنیاد آپ کا اپنا ووٹ بینک تو نہیں؟ آپ وعدے کے مطابق دس لاکھ بندے جو آپ کے ووٹ بینک کا 15٪ بھی نہ بنتا تھا، نہ لا سکے اور 15 ہزار بندوں کے ساتھ دھرنا دینے آ گئے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں
آپ تین سیٹیں جیتے ہوئے ہیں، کہاں تھا وہ ووٹر؟ وہ ووٹر تھا ہی نہیں یا آپ کے اوپر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا یہ بات تو شاید اب وقت ہی بتائے گا لیکن طاقت اور اقتدار کی خواہش نے آپ کو بہت چھوٹا کر ڈالا۔ آپ کے امیج کو خراب کرنے کی ابتدا تو اسی دن ہو گئی جب آپ نے قادری کے ساتھ دھرنے کا آغاز کیا تھا۔ لیکن آپ کی بے بسی کی انتہا وہ تھی جب قادری صاحب کہہ رہےتھے کہ عمران خان تمہارے کارکن تھوڑے ہیں تو فکر نہ کرو، میرے کارکنوں کو اپنا کارکن سمجھو۔ ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا سربراہ ایک فرقے کی افرادی قوت کا محتاج ہو گیا۔ اس وقت بھی آپ کو سمجھ نہ آئی کہ اقتدار کے چور دروازے سے آنے کی خواہش نے آپ کو کس جگہ لا کھڑا کیا ہے۔
قادری صاحب کی عزت ایک سکالر کے طور پر تھی، پر عظمت کی خواہش ان کو سیاست میں لے آئی۔ چند سال کی سیاحی اور سیاسی مشکلات نے ان کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اگر کوئی راستہ ان کے اقتدار کی طرف جاتا ہے تو وہ فوجی بیرکوں کے درمیان سے ہے اور وہ آج تک اس پر اپنی پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنے مریدین کے خون کو ایندھن کے طور پہ جلا کہ اپنے اقتدار کی شمع روشن کرنا چا ہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرتوڑ کوشش کی، کسی قربانی اور کسی جھوٹ سے گریز نہ کیا، لیکن برا ہو اس جمہوریت کا، جس پہ یہ سیاستدان ایمان لا چکے ہیں۔ انہیں سمجھ آ گئی ہے کہ اچھے یا برے، ہم ہی نے یہ سسٹم چلانا ہے اور اسے بہتری کی طرف گامزن کرنا ہے۔ قادری صاحب، آپ سے گزارش ہے کہ واپس کینیڈا جا کہ ضرور بتائیے گا کہ پاکستانیوں کو تھوڑی تھوڑی جمہوریت کی آگاہی ہو چکی ہے۔
ان دو سازش کے نمائندوں نے فوجی اور سیاستدان سے لے کر آمریت اور جمہوریت تک کے درمیان خلیج کو واضح کیا اور یہ اصول وضع کیا کہ بھلے آپ حکومت، سیاستدان، سسٹم یا پارلیمنٹ کو گالی دیں لیکن خبردار آپ فوج کو گالی نہیں دی سکتے چاہے وہ انقلاب کو سپانسر کرتی پھرے۔ فوج اور اس کے سیاسی ونگ کو بھی یہ احساس تو یقین، ھو رہا ہو گا لیکن یہ ان کی پہلی شکست ہے لہٰذا وہ اتنی جلدی ہار نہیں مانیں گے۔ اقتدار، طاقت اور کنٹرول کی خواہش کم اذ کم ایک دفعہ پھر انہیں اس چڑھائی پر مجبور کرے گی۔ بیشک سیاستدانوں نے پہلی دفعہ کردار اور اصول پرستی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن یاد رہے، اب اس سے کہیں زیادہ توجہ، محنت اور یقین کی ضرورت ہے۔