Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Badesi Mujahid, Lazpat (5)

Badesi Mujahid, Lazpat (5)

بدیسی مجاہد - لاز پت (5)

انگریز کمپنی کمانڈر جان کارنک کمانڈ پوسٹ سے نکل کر میدان جنگ کا جائزہ لے رہا تھا۔ شاہ عالم کے میدان جنگ سے فرار کے بعد ہندوستانی فوج تتر بتر ہوگئی تھی۔ کارنک نے تمام توپچیوں اور سپاہیوں کو فائرنگ بند کرنے کا حکم دیا۔ انگریز فوج کے سپاہی بھاگنے والوں کا پیچھا کر رہے تھے، چند ایک قابل استعمال ہتھیار اکٹھا کرنے میں مصروف تھے۔ کارنک نے سپاہیوں کو اپنے زخمی جلد طبی امداد کے لیے لانے کا حکم دیا۔ میدان جنگ کے ایک حصے سے ابھی تک توپ چلنے کی آواز آرہی تھی۔ کارنک نے اس طرف مڑ کر دیکھا اور اشارہ کرتے ہوئے پوچھا "وہاں کیا ہو رہا ہے"۔

"صاحب ادھر بادشاہ کی فوج کے چند سپاہی ابھی تک لڑ رہے ہیں"۔

"کتنے لوگ ہیں"، کارنک نے پوچھا۔

"ما لوم نہیں صاحب "۔

کارنک نے اپنے گھوڑے کا رخ اس سمت کر لیا۔ حفاظتی دستہ کارنک کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

جین مہارت سے توپ کا استعمال کر رہا تھا۔ اتنی پھرتی سے وہ توپ لوڈ کرتا اور اس کا نشانہ بھی کمال کا تھا۔ انگریزی فوج کے سپاہیوں نے کئی دفعہ آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ گھڑ سواروں کے اجتماعی حملہ اس فرانسیسی سپاہی نے توپوں اور بندوقوں کے استعمال سے ناکام کر دیا تھا۔ بندوقوں کا اک ڈھیر اس کی توپ کے ساتھ رکھا تھا، یہ بندوقیں اس نے اپنے اور انگریز کے مردہ سپاہیوں کے پس سے اکٹھی کروائی تھیں۔ اس کے زخمی سپاہی بندوقیں لوڈ کرنے میں اس کی مدد کر رہے تھے۔ انگریز اس کی مزاحمت ختم کرنے میں کافی جانی نقصان اٹھا چکے تھے۔ انہوں نے توپوں کے ذریعے بھی حملہ کیا لیکن اس کی توپ کی رینج ان سے زیادہ اور نشانہ ان کے توپچیوں سے زیادہ سچا تھا۔ نتیجہ انگریز فوج کی توپوں کی تباہی کی صورت میں نکلا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کے لیے یہ مزاحمت توڑنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ کافی جانی نقصان بھی اٹھا چکے تھے۔ ہر طرح سے کوشش میں ناکامی کے بعد اب ان کے پاس واحد حل اس کے تھکنے یا سونے کا انتظار کرنا تھا میجر کارنک اس کی بہادری اور دلیری پہ حیران تھا۔ ایسا جنونی کوئی اپنی زمین سے عشق کرنے والا ہی ہو سکتا ہے۔ کارنک نے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد سپاہیوں کو، جوپہلے ہی جین لا کی توپ کی رینج سے باہر تھے، ان کو مزید پیچھے جانے کا حکم دیا۔ کارنک نے خود اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

کارنک نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔ ہاتھ کے اشارے سے باقیوں کو رکنے کا کہا اور آہستہ آہستہ جین لا کی طرف بڑھنے لگا، جس نے میدان جنگ کے بیچوں بیچ اپنے لیے تباہ شدہ توپوں اور خندق کی مدد سے قلعہ بنایا ہوا تھا۔ انگریز فوج باوجود زیادہ تعداد کے اس کے اس وقتی قلعے کو نہِیں ڈھا سکی تھی۔ اور اب کارنک اس قلعے کو فتح کرنے میں ناکامی کے اعتراف کے ساتھ امن کی دعوت لے کر قلعے کے کمانڈر اور اکلوتے دفاعی فوجی سے مذاکرات کرنے آگے بڑھ رہا تھا۔

جین لا نے اکلوتے گھوڑ سوار کو اگے بڑھتے دیکھا۔ اپنے پستول کو لوڈ کیا اور اپنے قدموں میں ڈھیر ایک بندوق کو لوڈ کرکے دوسرے ہاتھ میں لے لیا اور بدستور توپ کے پیچھے رہا۔ کارنک آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ اتنا قریب آ گیا کہ اس کو توپ کے پیچھے کھڑا فرانسیسی وردی میں ملبوس توپچی نظر آنے لگا تھا جس نے دونوں ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا رکھے تھے۔

کارنک نے دونوں ہاتھ گھوڑے کی لگام سے ہٹا کر بلند کرکے اشارہ دیا کہ وہ کسی حملے کی نیت سے نہیں آ رہا۔ اس نے اپنی کمر سے بندھا پستول اتار کے نیچے گرایا۔ جین لا کے وقتی قلعے سے تھوڑی دور جا کر اس نے گھوڑا روکا اور نیچے اتر آیا۔ کمر سے باندھی تلوار اتاری۔ اسے بلند کرکے، زمین پر پھینک دیا۔ اور چند قدم مزید آگے بڑھ کر وہ اٹکتے ہوئے ہندوستانی زبان میں اس سپاہی سے مخاطب ہوا

"اے جوان، تم ایک بہادر سپاہی ہو، اور میں بہادروں کی قدر کرتا ہوں۔ میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میں تم سے دو بدو چند لمحوں کے لیے بات کر سکتا ہوں؟"

"ہاں آگے آ جاو "۔

کارنک قدم بڑھاتا ہوا توپ سے نزدیک جا کھڑا ہوا۔ اس کی بندوق، تلوار اور گھوڑا اب کافی فاصلے پر تھا۔

جین لا نے بندوق پھینک دی اور پستول ہاتھ میں لیے کارنک کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ کارنک اپنے سامنے ایک گورے فرانسییسی سپاہی کو دیکھ کر حیران ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ فرانسییسی دستے میں شامل وہ کوئی دیسی سپاہی ہوگا۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی اس سرزمین کا باشندہ ہی اتنی جانفشانی سے لڑ سکتا تھا۔ جو اپنی زمین کو دشمن کے پاس جانے سے بچانا چاہتا ہو۔ اسے شک بھی نہیں تھا کہ کوئی بدیسی اس زمین کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر لڑ سکتا ہے۔

"کیا تم فرنچ ہو" کارنک نے سوال داغا۔

"جین، جین لا ڈی لارسٹن"۔۔

"میں میجر کارنک، اس انگریزی فوج کا کمانڈر ہوں، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ تم ایک بہادر شخص ہو، میں نے بہت بہادروں کو جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتے دیکھا ہے۔ لیکن میری فوج کو اتنی دیر روکنا صرف بہادری سے ممکن نہیں تھا۔ میں تمہاری مہارت کا اعتراف کرتا ہوں۔ تمہاری مہارت اور نشانہ بلاشبہ بہترین ہے"۔

"شکریہ میجر، اور میری یہ مہارت میری آخری سانس تک تمہارے خلاف استعمال ہوگی"، جین لا کا لہجہ مضبوط تھا۔

"اپنی ساری مہارت اور بہادری کے باوجود تمہاری جیت ناممکن ہے"۔

"تو میں ذلت کی موت سے اس میدان میں دشمن کی گولی سے مرنا بہتر سمجھوں گا"، جین لاء نے اٹل لہجے میں جواب دیا۔

"ہم بہادروں کو عزت دیتے ہیں، اور تم سے بہادر اس میدان جنگ میں اور کوئی نہیں"۔

جین لاء ہنسا۔۔ "میری عزت اس وقت تک ہے جب تک میرے ہاتھ میں ہتھیار ہے، ہتھیار پھینکتے ہی بہادر جنگی قیدی کہلاتا ہے"۔

"میرا تم سے وعدہ ہے کہ تمہارے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے گا" کارنک حلف اٹھانے والے انداز میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے بولا

"ہاہااہاہاہاہاہ۔۔ میں انگریزوں پہ اعتبار کرنے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں"۔۔

"ہم نے دنیا فتح کرنی ہے، اور اگر ہم اپنے دشمن کی خوبیوں کو نظر انداز کریں گے تو یہ ارادہ پورا نہیں ہو سکتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ تمہاری رائے، ہمارے بارے میں کیا ہے لیکن کمپنی کے دروازے ہر بہادر کے لیے کھلے ہیں۔ اس میں قومیت کی تخصیص نہیں۔ ہندوستانی ہو یا فرانسیسی، کمپنی ہرایک کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے"۔

"میں انگریز کے لیے کبھی نہیں لڑؤں گا"، جین لاء کی بھنویں تن گئیں۔۔

"میں تمہاری رائے کا احترام کرتا ہوں۔ تم ایک بہادر آدمی ہو لیکن تم جانتے ہوکہ حالات تمہارے خلاف ہیں۔ تم چاروں طرف سے گھرے ہو۔ آج نہیں تو کل نیند نے تمہیں گھیر لینا ہے۔ ہم نے تو صرف اس لمحے کا انتظار کرنا ہے۔ اور پھر تم جنگلی جانور کی طرح قابو میں کر لیے جاو گے۔ تم اپنی جان دینا چاہو گے بھی تو خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا"۔ کارنک نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

"تم نے آج کے دن میں ہماری فوج کا اتنا نقصان کیا ہے جس کی گونج لندن تک سنائی دے گی۔ تمہاری پوری فوج تو ہمارے سامنے اتنی دیر بھی نہ ٹک سکی جتنی دیر میں اپنا یونیفارم بدلتا ہوں اور تم اکیلے نے ہمارا پورا دن کھوٹا کر دیا۔ کتنی توپیں بیکار کروانے اور درجنوں سپاہی مروانے کے بعد بھی میں تمہارے سامنے کھڑا تمہیں زندگی کا راستہ دکھا رہا ہوں۔ میں کسی جی دار آدمی کو بے بسی کی حالت میں دیکھ کر لطف اندوز نہیں ہوتا"۔

"تمہارا شکریہ میجر، لیکن مجھے انگریز کی زبان پہ اعتبار نہیں۔ تم لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر جھوٹ بول سکتے ہو، ہر دھوکہ دے سکتے ہو"، جین لاء تلخ ہوگیا۔۔

"تمہاری بات سے انکار نہیں، ہم اپنا مقصد ہر صورت حاصل کریں گے لیکن کمپنی کے مقاصد میں کہیں"جین لاء" جیسے بہادر کی جنگلی بھیڑئیے جیسی موت شامل نہیں ہے، ہمارے مقاصد بڑے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہم دشمن کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں"۔

کارنک نے تھوڑا توقف کیا اور جین لاء کے چہرے پہ نظریں مرکوز رکھیں۔

"میں تمہیں اپنے ساتھ ہاتھ ملانے کی دعوت دیتا ہوں ہم مل کر یہ دنیا فتح کریں گے"، کارنک نے بانہیں پھیلاتے ہوئے کہا۔

"میں کہہ چکا ہوں کہ انگریز کی غلامی سے بہتر ہے میں جنگلی بھیڑئیے کی طرح یہیں مارا جاوں" جین لاء کا فیصلہ اٹل تھا۔

"صحیح ہے، پھر ہم تمہیں واپس تمہاری سرزمین بھجوا دوں گا" کارنک ہنسا "ہندوستانی زمین اب انگریز مخالف بہادروں کے لیے بہت گرم ہونے والی ہے وہ یہاں زندہ نہیں رہیں گے۔ لیکن میرا وعدہ ہے کہ تم واپس جاو گے"۔

جین لاء مسکرائے۔۔ "مسئلہ تو انگریز پہ اعتبار کا ہے میجر"۔

"میرا وعدہ کمپنی کا وعدہ ہے، اگر یہ پورا نہ ہوا تو کال کوٹھڑی ہو یا پھانسی کا پھندہ، کارنک تمہارے ساتھ رہے گا"۔

1765 میں فرانس اور انگلینڈ کے درمیان امن معاہدے کے بعد پانڈی چری واپس فرانس کے حوالے کر دیا گیا۔ جین لاء ڈی لارسٹن واپس پانڈی چری میں گورنر جنرل کے طور پر آیا اور پانڈی چری کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان میں آج بھی اس کے نام پر ایک گاوں آباد ہے جس کا نام ہے "لاز پت"۔۔

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar