Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Badesi Mujahid, Chander Nagar, March 1757 (3)

Badesi Mujahid, Chander Nagar, March 1757 (3)

بدیسی مجاہد - چندرنگر۔ مارچ 1757 (3)

"جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں، تاج برطانیہ کے ساتھ ہماری جنگ اب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا ناممکن ہے کہ اس سرزمین پہ وہ جنگ نہ ہو۔ بنگال برطانیہ اور فرانس دونوں کی معیشت کے لیے بہت قیمتی ہے۔ یہ سونے کی چڑیا ہے اور اس چڑیا کو ہم اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے یہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم چندرنگر کا دفاع اپنی جانیں دے کر کریں۔ فرانس کی اس خطے میں موجودگی کے لیے یہ قلعہ بہت اہم ہے۔ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن یہ قلعہ مضبوط ہے اور انگریز ہم سے دس گنا زیادہ بھی ہوئے تو بھی ہم اس کا دفاع کر سکتے ہیں"۔

نوجوان جین لاء کو چندرنگر میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مگر اس کو صاف معلوم پڑ رہا تھا کہ کمانڈر رینالٹ کے الفاظ کھوکھلے ہیں۔ اس قلعے کو کبھی دفاعی نکتہ نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا۔ فرانس ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمیشہ اس کو تجارتی مرکز کے طور پہ استعمال کیا ہے۔ قلعے کی حفاظت کے لیے سات سو سپاہی اور صرف 16 توپیں تھیں جن کو قلعے کی کمزور دیواروں پہ پھیلا کر نصب کیا گیا تھا۔

دریائے ہگلی کے کنارے پر تعمیر کئے گئے اس قلعے کا دفاع تقریبا ناممکن تھا۔۔ اور دریا کی سمت اس قلعے کی کوئی دفاعی تیاری نہیں تھی۔ اور شنید تھی کہ انگریز کمانڈر کلائیو دریا کی سمت سے اپنے جنگی بیڑے کے ساتھ حملہ آور ہوگا۔ اس جنگی بیڑے کی کمان ایڈمرل چارلس واٹسن کے پاس تھی جس کے پاس وسیع جنگی تجربہ تھا۔ تین بڑے مضبوط جنگی جہازوں پہ مشتمل یہ بیڑہ چندرنگر کو تنکوں کی طرح اڑانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

جین لاء نے ہندوستان میں قدم رکھتے ہی یہاں کے لوگوں کے مزاج اور زبان سے آشنائی حاصل کرنے کے علاوہ فوجی تربیت حاصل کرنا بھی شروع کر دی تھی۔ اب وہ نہ صرف یہاں کے باشندوں سے ان کی زبان میں کافی بہتر انداز میں گفتگو کرنے لگا تھا بلکہ اس نے مقامی لوگوں پہ مشتمل ایک جنگی بٹالین کھڑی کرکے رینالٹ کی پریشانی میں کافی کمی کر دی تھی۔ رینالٹ نے اس کی کوششوں کو دیکھ کر چند تجربہ کار فرانسیسی سپاہیوں پہ مشتمل دستہ اس کی کمان میں دے دیا تھا۔ جو اس بٹالین کی ٹریننگ اور ڈسپلن کو بہتر بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے تھے۔ جین لاء ایک ہردلعزیز کمانڈر، اور ماہر توپچی کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔

"سارے جہاز قلعے والی سائیڈ میں قطار میں کھڑے کرکے انہیں زنجیروں سے باندھ دو۔ ہر جہاز کے اوپر توپ لگا دو۔ بارود کا ذخیرہ ہر جہاز پہ ہونا چاہیے۔ زنجیروں کو دریا کے کنارے مضبوطی سے باندھ دو اور ان کی حفاظت کے لیے دونوں جانب چوکی بنا کر اس کا دفاع مضبوط بناو"۔ رینالٹ نے شوری کو اپنی دفاعی حکمت عملی کے مطابق احکامات جاری کیے۔

واٹسن کے جنگی بیڑے کو بیکار کرنے کے لیے تجارتی جہازوں کے استعمال کا اس سے زیادہ شاندار منصوبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ رینالٹ نے اپنے تجارتی جہازوں کو بیک وقت دفاعی حصار اور جارحانہ ہتھیار میں ڈھال دیا تھا۔ جین لاء متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ رینالٹ نے جین لاء کو بقیہ توپوں کو زمینی حملے کو روکنے کے لیے مناسب مقام پر تنصیب کا حکم دیا۔

لاء نے اپنی کمپنی کو مختلف مقامات پہ توپیں لگانے کا حکم دیا۔ قلعے کی دیوار کی طرف سے حملے کو تو وہ چند توپوں سے ہی ناکام بنانے کا یقین رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے چوکیوں کی مدد کے لیے توپوں کومقرر توپوں پہ زیادہ توجہ دی۔ اس کا خیال تھا کہ انگریز جہازوں کے اس حفاظتی حصار کی امید نہیں رکھتے اور ان کو راستے سے ہٹانے میں ناکامی پہ ان کا سارا زور ان چوکیوں پہ ہوگا اور وہ ضرور ان جہازوں کو باندھنے والی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہی موقعہ ہوگا جب وہ زیادہ سے زیادہ انگریزوں کو نرکھ پہنچا سکے گا۔

***

"صاحب، رینالٹ صاحب نے آپ کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ آپ کا سامان لاد دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمام بدیسی سپاہی فورا جہاز پر پہنچیں۔ اس قلعے کی حفاظت ناممکن ہے ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکلنا ہے"۔ اردلی نے قلعے کے کمانڈر کا حکم جین لاء کو سنایا۔

وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔ قلعہ چھوڑنے کا خیال اس کی جان نکال رہا تھا لیکن رینالٹ کی بات درست تھی۔ اب اس کا دفاع ناممکن تھا۔ لیکن ہندوستان سے فرار ہونا اس کی انا کو قبول نہیں تھا۔

"کس سوچ میں پڑ گئے آپ، ہمیں جلدی کرنی ہوگی"، اس کے اسسٹنٹ لوئیس نے اس کو خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا۔

"میں بھگوڑے کے طور پہ فرانس واپس نہیں جا سکتا۔ میں واپس نہیں جاوں گا"۔ جین نے اپنا ارادہ بتایا۔

"ایک گھوڑا لاو"، جین لاء نے اپنے ہتھیار اور بارود اکٹھا کرنا شروع کیا۔

"یہاں آپ کیا کریں گے، انگریزوں نے یہاں حملہ کرکے نواب کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ یہ جنگ اب رکنے والی نہیں۔ انگریزوں نے یقینا نواب سے ٹکر لینے کی طاقت اکٹھی کر لی ہے" لوئیس نے حالات سمجھانے کی کوشش کی۔

"انگریز نے یہاں جنگ شروع کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ تو ہندوستان کا میدان بہترین جگہ ہے انگریزوں کے ساتھ لڑنے کا۔ اس لیے میں ہندوستان نہیں چھوڑوں گا"۔

"مگر کیسے لڑیں گے" لوئیس نے حیرانی سے سوال داغا۔

"ابھی نہیں پتہ۔ لیکن میرا دل کہتا ہے کہ مجھے انگریزوں سے لڑنے کے لیے اس سے بہتر موقعہ نہیں ملے گا۔ یہاں ان سے لڑنے ہوئے مر جانا۔ فرانس میں بھگوڑے کے طور پر زندگی گزارنے سے بہت بہتر ہے"۔ جین نے اپنے ہتھیار سمیٹنے ہوئے کہا۔

لوئیس فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ جین لاء اپنی کمپنی میں گرو کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے ہمیشہ لیڈر کے طور پہ صرف اس کو ہی نہیں پوری کمپنی کو متاثر کیا تھا۔ ہندوستانی سپاہی بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کی بات لوئیس کے لیے پھانس بن گئی تھی۔

"فرانس میں بھگوڑے کے طور پر زندگی"، یقینا لوئیس یہ زندگی نہیں گزارنا چاہتا تھا۔

"ایک اور گھوڑا لاو"، لوئیس نے اونچی آواز میں کہا۔ "میں بھی ایسے فرانس نہیں جاوں گا"۔

لوئیس کا فیصلہ سن کر تذبذب سے دوچار فرانسیسی سپاہیوں کو اپنا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگئی

"میں بھی"، ایک آواز آئی

"میں بھی" دوسری آواز۔۔

اور پھر ایک کے بعد ایک آواز آنے لگی۔

جین لاء نے سب پر ایک نظر ڈالی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس کا اپنا مستقبل واضح نہیں تھا اور اب پوری کمپنی کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ان پڑی تھی۔ اس کے پاس پلان نہیں تھا کوئی لیکن اس کا مقصد واضح تھا۔۔

جین لاء رات کے پچھلے پہر، اندھیرے میں اپنے سو فرانسیسی سپاہیوں، چند ہندوستانی سپاہیوں اور دس توپوں کے ساتھ جنگل میں غائب ہوگیا۔

***

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad