Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Azam
  4. Teesra Beta

Teesra Beta

تیسرا بیٹا

صبح سویرے محلے کے گھر سے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں اور محلے کے لوگ آہستہ آہستہ اس گھر میں جا رہے تھے جہاں شور اٹھا ہوا تھا۔ لوگوں نے دیکھا گھر کی بہو اپنی ساس کو گھسیٹ کر باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"میں اب تھک چکی ہوں، آپ کی خدمت کی ذمہ داری فقط میری تو نہیں ہے۔ آپ کیوں اپنے بڑے بیٹے کے گھر نہیں چلی جاتیں"۔ بہو نفرت بھری نگاہوں سے بڑھیا کو دیکھ رہی تھی۔

بڑھیا کی عمر فقط 35 سال کی تھی اس وقت اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے دونوں بیٹوں کو انھوں نے باپ کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ ماں باپ دونوں کا پیار دیا اور خود محنت کرکے ان دونوں کو پال پوس کر بڑا کیا اور دونوں کی شادی کرا دی۔ جب دونوں بیٹوں کے بچے ہوئے تو دونوں الگ ہو گئے۔ علحیدگی کے وقت دونوں اس بات پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے کہ ماں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔

آخر میں خاندان کے بڑے بوڑھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ماں ایک مہینہ ایک بیٹے کے پاس رہیں گی ایک مہینہ دوسرے بیٹے کے پاس۔ چند عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا مگر بہت جلد دونوں بہوئیں ساس کی ذمہ داری سے اکتا گئیں اور دونوں ساس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی رہتیں۔ کچھ عرصے تک دونوں بیٹوں نے اپنی ماں کا بھرپور ساتھ دیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی بیویوں کی باتوں کا اثر ان پر بھی ہونے لگا۔ اب دونوں بیٹے ماں کی ذمہ داری سے آزاد ہونا چاہتے تھے لہذا جس بیٹے کے گھر ماں ہوتیں وہاں ان کی تذلیل بہو بیٹے کے سامنے کر گزرتی تھی۔

آئے روز نت نئے طریقوں سے بہوئیں ساس کو تکلیف دیتیں، ان تکلیفوں میں جسمانی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر ذہنی تکلیف دی جاتی۔ ساس کو طرح طرح سے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ کھلانے پلانے کا احسان بھی لگایا جاتا۔ ماں کو بہوؤں کے طعنوں سے زیادہ اپنے بیٹوں کی خاموشی تکلیف دیتی۔ ایک آدھ بار انھوں نے اپنے بیٹوں سے بہوؤں کی شکایت بھی لگائیں مگر بیٹوں نے اپنی اپنی بیویوں کو سمجھانے کی بجائے الٹا ماں کو ہی برا بھلا کہا، اس طرح وہ اپنے بیٹوں سے بھی شکایت لگانا چھوڑ چکی تھیں۔

جس گھر میں ماں کو رکھنے کی باری ہوتی اس مہینے اس گھر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی رہتی۔ ایک دن بڑا بیٹے نے انہی جھگڑوں سے عاجز آ کر گاؤں چھوڑ کر شہر جانے کا ارادہ کر لیا۔ اپنی بیوی کی بیماری کا بہانہ کرکے وہ ماں کو چھوٹے بھائی کے حوالے کرکے اپنی فیملی کے ساتھ لاہور چلا گیا۔ شروع شروع میں سب کو یہی لگا کہ وہ اپنی بیوی کا علاج کرکے واپس آ جائے گا لیکن چھے مہینے گزرنے کے باوجود وہ نہیں آیا اور لوگوں سے پتہ چلا کہ وہ دوبارا واپس نہیں آئے گا۔

اس خبر کے سنتے ہی چھوٹی بہو کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انھوں نے ماں کا جینا حرام کر دیا۔ آئے روز کے جھگڑوں سے محلے والے بھی متاثر ہو رہے تھے۔ محلے کے بزرگوں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی ایک بزرگ نے کہا۔ "تمھاری والدہ نے تم لوگوں کی خاطر اپنی جوانی تباہ کی ہے، انھوں نے ہمیشہ تم دونوں بھائیوں کی خوشی کو مقدم جانا ہے۔ آج جب تم لوگوں کی خدمت کرنے کی باری آئی ہے تو تم لوگ دور بھاگتے ہو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟"

چھوٹا بیٹا غصے میں کہنے لگا۔ "آپ بھی عجیب ہیں محترم، یہ میرے اکیلے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بڑے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ لاہور بھاگ گئے اب میں کیوں ساری ذمہ داری اٹھاوں؟ سال میں چھے مہینے پالنے کی ذمہ داری میری ہے باقی چھے مہینے میں نہیں پالوں گا"۔

محفل میں بیٹھے سب لوگ شرم سے سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ یہ ساری باتیں ماں سن رہی تھیں اور سسک سسک کر روتی جا رہیں۔ محلے کے بزرگوں نے مناسب یہی جانا کہ اس حوالے سے بڑے بیٹے سے رابطہ کیا جائے یہاں اس کو بھری محفل میں کال ملائی گئی۔ جب کسی بزرگ نے اس سے ماں کی ذمہ داری اٹھانے اور اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا مطالبہ کیا تو اس نے آگے سے یہ کہتے ہوئے کال کاٹ دی کہ "میں اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری بڑی مشکل سے اٹھا رہا ہوں۔ اب کسی اور کی ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے اور میری بیوی والدہ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس لیے میری طرف سے معزرت ہے"۔

محلے والوں نے سمجھا بجھا کر چھوٹے بیٹے کو کسی نہ کسی طرح قائل کرکے ماں کو اس کے گھر بٹھایا گیا۔ کہنے کو تو وہ اس گھر میں رہتی تھی مگر ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ نہ ان کو وقت پر کھانا ملتا تھا نہ سونے کے لیے بہتر بستر کا انتظام کیا جاتا اور نہ ہی پہننے کے لئے کپڑے ہوا کرتے تھے۔ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں بوڑھی ماں اپنے آنے والے دنوں کے خوف سے روتی رہتیں اور مرنے کی دعائیں کرتی رہتیں۔ وقت گزرتا گیا اور ان پر بیٹے اور بہو کی جانب سے سختیاں بڑھنے لگیں۔ کئی کئی روز فاقوں میں گزر جاتے اور دونوں میاں بیوی ماں کے مرنے کا انتظار کرتے رہتے۔ نہ میاں بیوی کی مراد پوری ہو رہی تھی نہ ماں کی دعا قبول ہو رہی تھی۔

ماں ساری دنیا یہاں تک کہ خدا سے بھی مایوس ہو چکی تھیں۔ اکثر تنہائی میں وہ خود کلامی کرتی رہتیں اور اپنے بیٹوں اور خدا کی شکایت کرتی رہتیں۔ جب بھی گھر میں بیٹے کو دیکھتا وہ نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی رہتیں مگر شکایت کرنے کی ہمت نہ کرتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے بیٹوں سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور خدا کی جانب سے معجزے کی امید دم توڑتی چلی گئی۔ ان کی دعاؤں سے نہ بیٹوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی نہ ان کو موت آئی۔ وہ ہر لمحہ موت کے لیے ترستی رہیں مگر موت نے بھی شاید نہ آنے کی قسم کھائی تھی۔

ایک دن بھوک کی شدت سے نڈھال ہو کر انھوں نے بیٹے سے کھانا مانگا، اسی بات پر بحث شروع ہوگئی اور بہونے ہاتھ پکڑ کر انھیں گھر سے نکال دیا۔ بیٹا ماں کی بے بسی پر تماشائی بنے کھڑا رہا۔ ماں تھوڑی دیر دہلیز پر بیٹھی رہی اور جب خود کو ہر طرح سے بے سہارا پایا تو لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگیں۔ تھکاوٹ سے چور ہو کر بڑی مشکلوں سے وہ چھومک پل پہ پہنچیں۔ وہاں ہر طرح گہما گہمی اور زندگی نظر آ رہی تھیں۔ بچے کھیل رہے تھے، عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں اور چند جوان دریا میں کرتب دکھا رہے تھے۔

بوڑھی ماں نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور پھر اس زندگی کی گہما گہمی میں شامل ہونے کے لیے اور زندگی کی اذیتوں سے مکمل نجات حاصل کرنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگائی۔ دریا میں ڈبکیاں لگاتے وہ زندگی سے نجات حاصل کرنے کے قریب ہی تھا کہ ریسکیو کے ایک جوان نے اپنی ہنر مندی دکھا کر ڈوبتی بوڑھی ماں کو بچا کر کنارے لے آیا۔ جب بوڑھی ماں کو ہوش آیا تو ان کو بچانے والے ریسکیو جوان میں اپنا تیسرا بیٹا نظر آ رہا تھا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz