Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Azam
  4. Sawal Ki Saza

Sawal Ki Saza

سوال کی سزا

اختر چائنہ سے اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد گاؤں آیا تھا اور گاؤں کے سب لوگ اس کے گھر مبارک بادی دینے جا رہے تھے۔ اس کے بچپن کے دوست خوش بھی تھے اور اداس بھی کیونکہ ان کو لگتا تھا زندگی کی دوڑ میں اختر ان سے بہت آگے نکل گیا۔ چند دنوں تک گھر پہ ملنے والوں کا سلسلہ جاری رہا جب یہ سلسلہ تھم گیا تو معاشرے کے بزرگوں اور تعلیم یافتوں کی ادبی، علمی اور مذہبی محفلوں میں اسے بطور مہمان بلانے لگا۔ جس نوعیت کی بھی محفل ہوتی تھی اسے بطور مہمان ضرور بلایا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گاؤں گا پہلا پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھا۔ اس کی ایسی عزت افزائی دیکھ کر سب اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے بلکہ کسی کسی کو اپنی کم علمی کا شدت سے احساس بھی ہوتا تھا۔

ایک دن اسے میلاد کی محفل میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی تھوڑی دیر وہ شش و پنج میں مبتلا رہا کیونکہ اس نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی تھی جبکہ محفل تھی میلاد کی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس محفل میں جا کر اسے کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔ خیر وہ اسی تذبذب میں مبتلا محفل میں شریک ہوا۔ اسٹیج سیکرٹری نے اسے شانِ پیغمبری بیان کرنے کے لیے دعوت دی وہ اسٹیج پر گیا اور کہنا شروع کیا۔

"دنیا میں کئی فلاسفر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کو بھی متاثر کیا ان فلاسفروں میں ایک بڑے فلاسفر حضرت محمد ﷺ بھی تھے۔ انہوں نے جو نظریہ آج سے چودہ سو سال پہلے دیا وہ نظریہ اس زمانے کے حساب سے سب سے زیادہ جدید اور انسانیت کے لیے نجات بخش نظریہ تھا۔ گو کہ یہ نظریہ آج بھی متاثر کن ہے تاکہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں تھوڑی بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ چند غیر ضروری تعلیمات کو ترک کرنے اور چند نئی تعلیمات کو دور جدید کی ضرورت ہے جو شامل کرنے کی ضرورت ہے یعنی اس نظریے کی نئی بنیادوں پر تشریح کی اشد ضرورت ہے تاکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کر سکیں"۔

مجمع میں لوگ آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے اور سب شک بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے ایک جوشیلہ ملا کھڑے ہو کر درشت لہجے میں کہنے لگا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہماری تعلیمات کو غیر متعلق کہنے کی؟ خدا و رسول نے خود کہا ہے کہ یہ تعلیمات ہر زمانے کے لیے ہے پھر اس میں تبدیلی کی گنجائش کا تذکرہ کرکے تم گستاخی کر رہے ہو جوان۔ یہ تمھاری شیطانی علم (فلسفہ) کی کلاس نہیں بلکہ میلاد کی محفل ہے لہذا پیغمبر کی شان بیان کریں"۔

محفل میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں اور لوگ شدید غصے میں نظر آ رہے تھے اختر نے معاملے کی نزاکت کو جان کر راہ فرار اختیار کی۔ گھر پہنچنے کے بعد ڈر کے مارے رات بھر وہ سو نہ سکا، اسے پہلی بار احساس ہوا کہ مذہبی معاملات میں تنقیدی سوچ پر کس قدر پابندی ہے۔ اسے اندازہ ہوا کہ مذہبی تعلیمات پر تنقیدی جائزہ لینا اور اس کی خامیوں اور خوبیوں کو الگ کرنا، ضروری تعلیمات کو اپنانا اور غیر ضروری تعلیمات کو ترک کرنا کس قدر ناممکن کام ہے۔ وہ چائنہ میں دس سال فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں آ رہا تھا اس وقت اس نے یہی سوچا تھا کہ گاؤں جا کر لوگوں کی زندگی بدل دوں گا اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ معاشرے میں شعور بیدار کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی مگر اسے احساس ہوا کہ پہلی دفعہ روایت سے ہٹ کر کچھ کہنے کی ہمت دکھائی تو جاں خطرے میں پڑ گئی۔

اس دن کے بعد وہ کسی عوامی محفل میں گیا نہ اسے بلایا گیا۔ اس کے بعد وہ معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بیٹھک کرتا ان کے ساتھ علم و آگہی کی باتیں کرتا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ فلسفے کی باتیں اور تنقیدی جائزہ خواص کے سامنے ہی لینا چاہیے کیونکہ ان میں سمجھنے کی اور اختلاف رائے کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ شروع شروع میں جب اس نے معاشرتی ڈھانچے، اصول و روایت اور روایتی مذہبی عقائد پر سوال اٹھایا تو اس کے ساتھ بیٹھنے والے سخت مخالف ہو گئے مگر جب ان سے اس کے سوالات کا کوئی معقول جواب نہ بن پائے بن اس سے سیکھنے بیٹھ گئے۔ اختر نے ایک سال تک یہی سلسلہ جاری رکھا اس ایک سال میں ہر ہفتے کوئٹہ دربار ہوٹل پر نوجوان آ کر بیٹھ جاتے اور ہر قسم کے موضوع پر آپس میں گفتگو کرتے تھے۔ ایک دن ایک نوجوان نے سوال کیا۔

اختر بھائی آپ ہمیشہ مذہب اور روایت پر تنقید کرتے ہیں تو آپ ہمیں یہ بتائیں دنیا کی کل آبادی میں سے اکثریت مذہبی کیوں ہے؟"

"ارے یار میں مذہب یا روایت کو برا بھلا نہیں کہہ رہا اس میں موجود غیر ضروری تعلیمات کو غیر ضروری کہہ رہا ہوں۔ مذہب ہو یا روایت انسانوں کی بنائی چیز ہیں لہذا وقت اور حالات کے حساب سے اس کو بدلنا چاہیے۔ یہ دونوں اپنے زمانے کی ضرورت کو پورا کرتے تھے لیکن آج کے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہذا جدید تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری بات پچھلے زمانے میں لوگوں کے اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات مذہب دیتا تھا یا روایت اب ان سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت نہ مذہب میں ہے نہ روایت میں بلکہ فلسفہ اور سائنس ہی دو علوم ہیں جو ان سارے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ آج ایک مذہبی اور روایتی شخص بھی اپنی بات کو فلسفہ اور سائنس کے ذریعے سے دوسروں کے لیے قابل قبول بناتا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کے بغیر زندگی آگے بڑھ سکتی ہے سائنس اور فلسفے کے بغیر نہیں"۔ اختر اطمینان بخش نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔

"وہ سب تو ٹھیک ہے مگر دنیاوی زندگی تو عارضی ہے لہذا اخروی زندگی کے لیے مذہب ضروری ہے"۔ نوجوان تشکیک کا شکار نظر آ رہا تھا۔

"ایسے مذہب کا کیا فائدہ جو اس زندگی کو بہتر بنانے کے طریقے نہیں سکھاتا؟ یہ زندگی سب سے زیادہ بامقصد زندگی ہے کیونکہ اس میں انسان سب سے زیادہ با اختیار ہوتا ہے، وہ چاہے تو دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے، دوسروں کے لیے دنیا جنت بنا سکتا ہے، ایک بامقصد اور بھرپور زندگی گزارنے کی گنجائش اس زندگی کے علاؤہ کسی دوسری زندگی میں نظر نہیں آتی لہذا وہ مذہب، وہ علوم، وہ طور طریقے، وہ اصول و روایت جو اس زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت نہیں ان سب سے لاتعلقی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ مذہب اگر آپ کی حقیقی زندگی میں بہتری نہیں لا رہا اور روزمرہ کی زندگی کو ترقی دینے میں معاون ثابت نہیں ہو رہا تو اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے"۔

ایک سال کے اندر اندر گاؤں میں رہنے والا ہر پڑھا لکھا شخص بزرگوں سے اور ملاؤں سے روایت اور مذہب پر سوال کرنے لگا اور معقول جواب نہ مل پانے کی وجہ سے نوجوان تشویش میں مبتلا ہونے لگے اور آہستہ آہستہ اپنے ہی پیشواؤں سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔ گاؤں کا ہر نوجوان تشکیک میں مبتلا نظر آ رہا تھا کیونکہ اختر نے ان سب کو سوال اٹھانا اور شک کی نگاہ سے دیکھنا سکھایا تھا۔ روایت اور مذہب کے نام پر جو محفلیں منعقد ہوتی تھیں ان محفلوں میں شرکت کرنے کے ساتھ نوجوان سوال کرتے تھے۔ ان کے ایسے سوالات جن کا معقول جواب نہیں ہوتے تھے سے بزرگ اور ملا عاجز آ چکے تھے اسی لیے تمام بزرگوں اور ملاؤں نے مل بیٹھ کر اس مسئلے کے حل نکالنے کا فیصلہ کیا۔

"ہم عاجز آ چکے ہیں نوجوانوں کے عجیب و غریب سوالات سن سن کے۔ نجانے کون ان کو ایسے سوالات سکھاتا ہے، کبھی کبھی یہ نوجوان مشرکانہ سوالات بھی کرتے ہیں میرا بس چلے تو میں ان سب کو پھانسی کی سزا دوں"۔ غصے سے ملا شکور کی سانس پھولنے لگی۔

"فقط آپ ہی پریشان نہیں ہیں ہم سب بھی اتنے ہی پریشان ہیں۔ ہم جب بھی روایت کی بات کرتے ہیں یا مذہبی تعلیمات کی بات کرتے ہیں تو یہ نوجوان سوال اٹھاتے ہیں، اس میں نقص نکالتے ہیں۔ ان کے سوالات کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہوتے لہذا ہم انہیں مطمئن بھی نہیں کر پاتے۔ سب کے سب نوجوان گستاخ بن گئے ہیں"۔ فقیر ابراہیم بھی غصے میں بھرے ہوئے نظر آتے تھے۔

مجمع میں موجود تمام بزرگ اور ملا نوجوانوں کے سوالات سے پریشان تھے اور اس کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہتے تھے اسی دوران کسی جوان ملا نے جو حال ہی میں مدرسہ فارغ ہو کر آیا تھا مخاطب ہوا۔

"تمام بزرگوں اور ملاؤں کو میرا سلام بعد از سلام عرض ہے کہ ان سب کو بگاڑنے والا وہ اختر ہے، اختر ہی نوجوانوں کو فلسفہ اور سائنس کی تعلیم دے رہا ہے۔ کوئٹہ دربار ہوٹل پہ ان کی محفل ہر ہفتے سجتی ہے اور اس محفل میں اختر ان سب کو بغاوت اور کفر کی تعلیم دیتا ہے۔ پہلے وہ خود نوجوان کے سامنے روایت اور مذہب کے کمزور پہلوؤں پر سوال اٹھاتا ہے اور پھر خود ہی اس کی مخالفت میں جواب دیتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو بگاڑنے والا وہی ہے لہذا سوال پیدا ہونے سے روکنے کے لیے اسے روکنا ہوگا"۔

سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اختر کو بلایا کر اس سے توبہ کرائی جائے۔

"ہاں میاں اختر تم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے معاشرے کی تعمیر میں استعمال کرنے کی بجائے اس کو توڑنے میں کیوں استعمال کر رہے ہو؟" اختر کو مجرموں کی طرح کھڑا کرکے ملا شکور نے پوچھا۔

"نہیں قبلہ ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ تعلیم کا مقصد شعور و آگہی اور تنقیدی سوچ ہے اور مجھے تعلیم کی صورت میں یہی چیزیں ملی ہیں لہذا میں ان قیمتی اشیا کو نئے نسل میں بانٹ رہا ہوں"۔ اختر نے مودبانہ انداز میں جواب دیا۔

"لاحول ولاقوۃ اگر یہی شعور و آگہی ہے تو ایسی آگہی سے خدا کی پناہ جو خدا سے دور لے جائے۔ عقیدے کا مطلب تسلیم کرنا ہے سوال اٹھانا نہیں لہذا خدا و رسول کے احکامات کو بلا چوں چراں تسلیم کرنا ہی عین عبادت ہے، تم کیوں ان کچے ذہنوں میں سوال بھر رہے ہو؟ تمھاری وجہ سے ہمارے نوجوان روایت اور دین سے منحرف ہو رہے ہیں اور یہ ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے"۔ ملا شکور سخت لہجے میں بات کرتے کرتے تک گئے۔

"میرا مقصد مذہب اور روایت سے نوجوانوں کو دور کرنا نہیں ہے بلکہ میں حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سائنس اور فلسفے کی اہمیت و افادیت بیان کر رہا ہوں تاکہ وہ دنیا کا مقابلہ کر سکے۔ میں ان سے فقط یہی کہہ رہا ہوں کہ جو تعلیمات دنیاوی ترقی اور شعور و آگہی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں وہ تعلیمات کسی صورت بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتیں لہذا ان کا ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔ سالوں پرانی تعلیمات پرانے زمانے کے لوگوں کے لیے تھی اب زمانہ بدل گیا ہے اور سائنس نے بھی بڑی ترقی کی ہے لہذا پرانی تعلیمات نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اس لیے ان کو ترک کرنا ہی عین عبادت ہے"۔

اختر کی باتیں سن کر وہی نوجوان ملا بھڑک اٹھا اور کہنے لگے۔

"بند کرو اپنی یہ بکواسات، تمھیں دین کا کچھ بھی علم نہیں اور چلے ہو دین پر تنقید کرنے۔ تم ہوتے کون ہو یہ طے کرنے والا کہ کون سی تعلیمات فائدہ مند ہیں کون سی نہیں۔ ضروری نہیں تمام تر تعلیمات دنیا میں فائدہ مند ثابت ہوں بلکہ زیادہ تر تو اخروی زندگی کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں تم جیسے لوگ جو ارکان مذہب کو نہیں مانتے ایسے لوگوں کو مرتد کہا جاتا ہے اور مرتد واجب القتل ہے۔ تم نے اپنی باتوں سے ثابت کیا ہے کہ تم مرتد ہو اب یا تو توبہ کرو یا پھر سزا کے لیے تیار ہو جاؤ"۔

اس جوشیلے ملا کی باتیں سن کر اختر ہڑبڑا گیا، اس پر خوف طاری ہو رہا تھا کیونکہ اسے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ اس کے نوجوان ساتھی جو اس مجمع میں موجود تھے سب ڈرے ہوئے تھے۔ ملا شکور اور دوسرے بزرگوں نے اختر کو مزید دھمکایا اور زور دے کر کہا کہ تمھارے سوال کی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ یا تو صدق دل سے توبہ کرو یا پھر سنگسار ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جب مجمع میں سے اختر باہر نکل رہا تھا تب اس کی زبان پر مہر لگ چکی تھی اور چہرہ سوال سے خالی تھا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz