Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Azam
  4. Murda Parasti

Murda Parasti

مردہ پرستی

دنیا میں جن معاشروں نے ترقی کی ہے ان معاشروں نے ہمیشہ اپنے زندوں کو اہمیت دی ہے۔ ازل سے زندوں اور مُردوں کی کشمکش رہی ہے اور جن جن معاشروں میں مُردوں کی جیت ہوئی ہے وہ معاشرے مر گئے ہیں اور جن جن معاشروں میں زندوں کو جیت ہوئی ہے وہ معاشرے آج دنیا میں ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ "بقول شخصے ہر پرانے آدمی کو نئے آدمی سے خطرہ لاحق رہتا ہے" اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جس معاشرے نے نئے آدمی کی سوچ، فکر، فہم، ادراک، تنقیدی نظریات اور خیالات کو اپنایا ہے وہ معاشرہ ترقی کر گیا ہے، اُس معاشرے میں خوشحالی آئی ہے اور وہاں کے رہنے والوں نے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کیا ہے بلکہ اُس معاشرے کے شہری بننے کی ہر ایک کی خواہش بھی ہوتی ہے۔

دنیا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ معاشرے کے گزرے ہوؤں سے زیادہ معاشرے میں موجود افراد کو اہمیت دی جائے، دوسری بات یہ کہ وہ معاشرہ اپنے موجود افراد کو ایک کھلی فضا فراہم کرتا ہے جس میں افراد پچھلوں کی مجموعی زندگی کو تنقیدی نگاہ سے جائزہ لے سکیں تاکہ ان کی خامیوں سے سیکھا جا سکے۔ مُردوں کو مردہ سمجھنا، ان کے نظریے اور عقیدے کو حرف آخر نہ سمجھا اور ان کی زندگی کو مکمل نمونہ عمل نہ سمجھنا ہی سمجھداری کی علامت ہے اور ترقی یافتہ معاشروں میں ہمیں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

ترقی یافتہ معاشروں کے مقابلے میں ترقی پذیر(بلکہ ترقی معکوس کہنا زیادہ مناسب ہے) معاشروں میں ہمیشہ سے زندوں سے زیادہ مُردوں کو اہمیت دی جاتی ہے، زندوں کی سوچ، فکر، نظریات، دانش مندی، طرز زندگی، زندگی کرنے کے طور طریقے، رسم و رواج سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا ہے جبکہ مُردوں کی زندگی، ان کا قول، ان کی روایت، ان کی اقدار، ان کے دقیانوس تصورات اور خود ان کی شخصیت مقدس بن جاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں زندوں کی زندگی سے زیادہ مُردوں کی عزت اہم ہوتی ہے لہذا جب جب اس معاشرے کے زندے ہزاروں سال پرانے مُردوں پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں یا تاریخی حقائق کو تنقیدی نگاہ سے پرکھتے ہیں یا دقیانوسی کے اندھیرے میں جدت کا چراغ جلاتے ہیں تو ان زندوں پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔

معاشرے میں موجود ہجوم ہر صورت میں مُردوں کا طرف دار ہوتا ہے اور ہر بار مُردوں کے شان میں گستاخی کے نام پر زندوں سے ان کی زندگی چھین لیتا ہے۔ ایسا ترقی معکوس معاشرہ پہلے یہ معیارات بتاتا ہے کہ کسی بھی مذہب، اس کی مقدس شخصیات، صحیفوں، عبادات یا عقائد کے بارے میں گستاخی یا اہانت آمیز کلمات کہنا یا عمل کرنا ناقابلِ معافی عمل ہے اور اسی کے تناظر میں قوانین بنا کر مُردوں کو زندہ رکھنے اور ان کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے معاشرے کے وہ زندہ افراد جو روایت سے ہٹ کر بات کرتے ہیں کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان کی اپنی روایت، مقدس شخصیات اور مذہب و روایت کی بنیاد کسی دوسرے مذہب یا روایت کی رد پر ہی قائم ہے۔

ایسا ترقی معکوس معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس معاشرے میں مردوں کو اہمیت دینے کا رواج رہتا ہے۔ ایسے معاشروں کی ترقی اور وہاں رہنے والوں کی زندگی میں بہتری اسی وقت ممکن ہے جب وہ سابقہ کو عقیدت کی عینک سے دیکھنے کی بجائے تنقیدی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں۔ معاشرتی ترقی اور خوشحالی کا انحصار لمحہء موجود کو بہتر بنانے پر ہے اور لمحہء موجود کو بہتر بنانے کی صلاحیت کسی بھی سابقہ شخصیت نہیں رکھتی بلکہ یہ صلاحیت موجود کا ایک عام فرد سابقہ کی عظیم شخصیت سے زیادہ رکھتا ہے۔ لہذا اگر کوئی معاشرہ اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر صورت میں اس معاشرے میں موجود دانشوروں، مفکروں، معلموں، مدبروں ناقدوں اور تخلیق کاروں کو اہمیت دے، ان کی زندگی کو تحفظ دے اور انہی کی آئیڈیالوجی کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کرے کیونکہ ایک معاشرے کے لیے لمحہء موجود کے افراد سے زیادہ باکمال اور کار آمد کوئی سابقہ ہو ہی نہیں سکتا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed