Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Azam
  4. Muhib Aur Haseena

Muhib Aur Haseena

محب اور حسینہ

پریشان چوک کے بنچ پر بیٹھے وہ اپنے خیالات میں گم تھا کہ اچانک اس کی نظر اس لڑکی پر پڑی جو اتنی دیر سے اسے دیکھ رہی تھی۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوتے ہی لڑکی شرما گئی اور جلدی جلدی اوپر کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا اس کا دل کہہ رہا تھا کہ لڑکی اسے ہی دیکھ رہی تھی جبکہ دماغ خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے گریز کر رہا تھا۔ اسی کشمکش میں اس کے قدم خود ہی اس لڑکی کے پیچھے چلنے لگے۔ لڑکی جب وہاں سے چلی تو سیدھی سٹی پارک چلی جہاں لوگوں کا ایک ہجوم تھا، ہجوم میں اس نے اپنے آپ کو مطمئین محسوس کیا اور بے دھیانی کے عالم میں آگے بڑھتی چلی گئی۔

وہ بھی ذرا فاصلے پر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، یعنی اس نے لڑکی کا اس طرح پیچھا کیا کہ کسی کو شک نہ ہونے پائے۔ سٹی پارک کے کونے میں ہری ہری اور سر سبز گھاس پر لوگ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، لڑکی بھی تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے وہاں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد جب اس نے چاروں اطراف کا جائزہ لیا تو وہ دم بخود رہ گئی کیوں وہ لڑکا تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ جب دونوں کی آنکھیں چار ہوگئی تو دونوں نے شرم کے مارے گردن جھکائی۔

اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اس کے پیچھا کرنے پر لڑکی شور مچائے تو اس کی عزت کی نیلامی ہو جائے گی۔ مگر جب اس نے آہستہ سے لڑکی کی طرف دیکھا تو اسے محسوس ہوا لڑکی بھی اسے دیکھ رہی ہے۔ آدھا گھنٹے تک دونوں اسی طرح بیٹھے رہے اور ایک دوسرے سے چوری چھپے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر لڑکی اٹھ کر چلی گئی وہ بھی تھوڑے فاصلے پر اس کے پیچھے پیچھے پارک سے باہر چلا گیا۔ راستے میں بھی لڑکی بار بار اسے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی رہی۔

جون کے مہینے میں ٹھندی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور ہلکی پھلکی بارش بھی ہو رہی تھی اور آنکھوں میں دن کا منظر۔ وہ رات کو بڑی دیر تک اس کی خوبصورتی کو یاد کرتا رہا۔ جھیل جیسی آنکھیں، خنجر جیسی آبرو، حسین چہرہ، اونچی ناک، رسیلے ہونٹ، اونچا قد نرم و ملائم ہاتھ۔ جسم کے ہر حصے سے نفاست اور نزاکت ٹپکتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اس نے آج تک کسی لڑکی کے لیے اس قدر اپنائیت محسوس نہیں کی تھی۔ رات بھر وہ سونے کی بھرپور کوشش کرتا رہا مگر اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار اس لڑکی کی پلٹ کر دیکھنے کی ادا آتی رہی۔ انہی خیالوں میں وہ کروٹ بدلتا رہا رات کی آخری پہر میں تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھ لگ گئی۔

صبح یونیورسٹی میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا دوستوں نے اس کی آنکھوں میں نیند کا ہلکا سا خمار دیکھ کر دریافت کرنا چاہا مگر وہ سر درد کا بہانہ بنا کر جلدی گھر واپس آ گیا۔ گھر آتے ہی جانے کی تیاری شروع کر دی اس کی امی نے جل کر پوچھا۔ "پل بھر بیٹھے نہیں ہو کہ جانے کی تیاری کر رہے ہو۔ آخر کون سے ضروری کام کے سلسلے میں جا رہے ہو؟"

"ارے امی میں بس پارک تک ہو کر آتا ہوں، میرے دوست پارک میں میرا انتظار کر رہے ہیں"۔

وہ گھر سے سیدھا پریشان چوک گیا وہاں تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد پارک چلا گیا۔ پورا پارک گھوم لیا مگر وہ لڑکی کہیں نظر نہ آئی۔ بے چینی کے عالم میں وہ چوک اور پارک کا چکر کاٹتا رہا، آخر تھک ہار کر شام کو پریشان حال پریشاں چوک کے بنچ پر بیٹھا رہا۔ آہستہ آہستہ اندھیرا بڑھنے لگا اور وہ مایوس ہو کر گھر کو چلنے لگا۔ راستے میں اس کے قدم لڑکھڑا کر گرتے گرتے گھر پہنچ گیا۔ کچھ بھی کھانے پینے کا موڈ نہیں تھا مگر اس کی امی نے زبردستی کچھ کھلا پلا کر سر درد کی گولی دے کر سلا دیا۔ بظاہر تو وہ سو رہا تھا مگر نیند ندارد۔ وہ لڑکی کیوں نہیں آئی، اس کا کل مڑ مڑ کر دیکھنا محض ایک اتفاق تھا یا کچھ اور، ان وسوسوں نے دیر تک اسے سونے نہ دیا۔

صبح تھکاوٹ اور بے چینی کی وجہ سے وہ یونیورسٹی بھی نہ جا سکا۔ دوپہر تک وہ گھر میں بیٹھے خود کو بہلاتا رہا دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ نہا دھو کر کپڑے بدل کر نکل گیا۔ وہ اسی پنچ پر انتظار کر رہا تھا اتنے میں دور سے اس لڑکی کو آتے ہوئے دیکھا، اس کی نظر مسلسل اس لڑکی پر ہی جمی ہوئی تھی لڑکی جب پاس سے گزری تو دونوں کی نظریں چار ہوگئیں۔ لڑکی نے اسے دیکھ کر مسکرایا اور پارک کی جانب بڑھنے لگی۔ اب اس کی ہمت اور بڑھ گئی وہ بلا تردد اس کے پیچھے پیچھے پارک چلا گیا۔ ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے اب بھی اسے بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ مگر دونوں آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کی رضامندی کو سمجھ رہے تھے۔ پارک کے آخری حصے کی گھاس پر دونوں قریب قریب بیٹھ گئے مگر باتوں کا سلسلہ شروع ہونے نہیں پایا تھا اتنے میں لڑکی نے ہمت دکھاتے ہوئے پوچھا۔ "آپ میرا پیچھا کیوں کر رہے ہیں"۔

"وہ میں بس ایسے ہی پارک میں ٹہلنے آتا ہوں، اتفاق سے ہم دونوں کی ٹائمنگ ایک ہے"۔ اس سے معقول بہانہ نہیں بن پا رہا تھا۔

"یہ کیا بات ہوئی۔۔ آپ چوک پہ میرا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر میرے پیچھے پیچھے پورے پارک میں گھومتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے"۔ لڑکی کے لہجے میں کڑواہٹ نہیں تھی۔

"معزرت چاہتا ہوں یہ طریقہ کوئی اچھا طریقہ تو نہیں ہے مگر آپ کی آنکھوں میں کوئی خاص کشش ہے جو مجھے یہاں تک کھینچ لاتی ہے۔ ایک بار آپ کو دیکھنے کے بعد بار بار دیکھنے کی خواہش دل میں پیدا ہوگئی لہذا اسی خواہش کی تکمیل کے لیے آپ کا پیچھا کیا ہے ورنہ میرا کوئی برا ارادہ نہیں ہے"۔ وہ اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے قابو کر پاتا ہے۔

"آپ مجھے بنا رہے ہیں۔ فلرٹ کرنا مجھے پسند نہیں اور یوں انجان لڑکی کی بے جا تعریف کرنا کہاں کی شرافت ہے"۔

تھوڑی دیر یوں ہی خاموش رہے مگر بار بار آنکھیں چار ہوئیں اور ہر بار دونوں شرم سے نظریں چرا لیتے۔ آخر میں وہ کہنے لگتا ہے۔ "مُجھے فلرٹ کرنے کی عادت نہیں ہے بخدا آپ کا حسن و جمال ایسا ہے کہ میرا دل میرے قابو میں نہیں ہے۔ آپ کو دیکھ کر زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے"۔

لڑکی کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور وہ شرارتا پوچھتی ہے۔ "ایسا کیا ہے مجھ میں جو آپ پہلی ملاقات میں دیوانوں کی سی باتیں کر رہے ہیں"۔

اس کو قائل کرنے کا ایک اچھا موقع ملا۔ "ارے میں نے بچپن میں کہانیاں بہت سنیں ان کہانیوں میں حوروں، پریوں اور شہزادیوں کے کردار ہوا کرتے تھے۔ ان کی خوبصورتی کی ایسی ایسی تعریفیں کی گئی ہیں کہ بندے کو کبھی یقین نہ آئے۔ میں نے ان کہانیوں کے کرداروں کے حسن و جمال اور نزاکت و نفاست پڑھ کر یقین کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر پرسوں آپ کو دیکھا تو مجھے لگا ان کہانیوں کا کردار اور اس کا حسن و جمال میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ پہلی نظر میں مجھے آپ وہی حور، وہی پری اور وہی شہزادی معلوم ہوئیں جن کے بارے میں میں نے کہانیوں میں پڑھا تھا"۔

لڑکی نے شرم کے مارے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا اور آہستہ سے بولا۔ "آپ تو بڑے رومانی معلوم ہوتے ہیں، ایسی تعریفیں ہمارے سماج میں رائج نہیں ہیں لہذا اپنے تخیل کے پرندے کو اس قدر اونچا مت اڑائیے گا"۔

تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے لڑکی کا نام پوچھا اس نے اپنا نام حسینہ بتایا۔ نام سنتے ہی اس نے کہا۔ "آپ کا نام آپ کے حسن کی وضاحت کر رہا ہے"۔

حسینہ نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس سے اس کا نام پوچھا۔

"خاکسار کو محب کہتے ہیں"۔

اتنی دیر میں لڑکی اٹھ کر جانے لگی محب بے قرار ہو کر کھڑے ہوئے اور استفسار کیا۔ "دوبارا کب ملیں گی؟"

"میرا آپ کے ساتھ ایسا کوئی رشتہ نہیں"۔

"لیکن پھر بھی طالب کی طلب پوری ہونی چاہیے، آپ کو دیکھنے کی طلب بڑھتی چلی جارہی ہے"۔

حسینہ نے فقط اتنا کہا۔ "ملنا اگر قسمت میں لکھا ہے تو ضرور ملیں گے"۔ اور وہ خدا حافظ کہہ کر چل دیے۔

محب اس کے پیچھے پیچھے پارک سے باہر آیا اور پریشان چوک تک اس کا پیچھا کیا پھر وہ وہیں بنچ پر بیٹھ کر اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ آج وہ اپنی کامیابی پر خوش تھا۔ وہ بنچ پر ایک گھنٹے تک بیٹھا رہا اس کے ذہن میں کوئی سوال کوئی تشویش یا کشمکش نہیں تھی۔ وہاں سے اٹھ کر گھر کی طرف ہو لیے، رات کو کھانا کھانے کے بعد جلدی سو گیا۔

اگلے دن ٹھیک دوپہر کے وقت وہ پارک پہنچ گیا چاروں طرف نظر دوڑائی مگر اس کا آتا پتا نہ چلا۔ اس کے آنے کی امید میں وہ انتظار کرتا رہا، انتظار کرتے کرتے شام ہوگئی مگر حسینہ نہیں آئی۔ ناگاہ وہ ناامیدی کے عالم میں گھر لوٹا، رات بھر وہ کشمکش کی حالت میں کروٹ بدلتا رہا صبح جا کر کہیں اس کی آنکھ لگ گئی۔ اگلے دن وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر پارک چلا گیا، اس دن بھی انتظار کرتے کرتے وہ تھک ہار گیا مگر حسینہ نہیں آئی۔ یہی سلسلہ ایک ہفتے تک چلا اس ایک ہفتے میں اس کی طبیعت بھی گرنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی تھی۔ بس دن رات حسینہ سے ملنے کی تمنا لئے گھومتا رہتا اور رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا۔ ایک ایسا غم لاحق تھا جس کے بارے میں کسی کو بتانا بھی ممکن نہیں تھا۔

ہفتہ بعد وہ معمول کے مطابق پریشان چوک کے بنچ پر گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔ "آخر کس کے غم میں گھٹنے پہ سر رکھ کے رو رہے ہیں؟"

اس نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا، حسینہ پیچھے کھڑی تھی۔ اسے دیکھتے ہی محب نے پر شکوہ انداز میں کہا۔ "کہاں غائب تھیں اتنے دنوں سے؟ میں اتنے دنوں سے فقط انتظار ہی کرتا رہا ہوں"۔

"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ اس قدر بے صبری سے انتظار کریں گے۔ ہمارے گھر مہمان آئے ہوئے تھے جس وجہ سے مجھے پارک آنے کا موقع نہیں ملا"۔

باتیں کرتے ہوئے دونوں نے سٹی پارک کا رخ کیا۔ اس بار دونوں نے تھوڑی خلوت والی جگہ کا انتخاب کیا تاکہ سہولت سے گفتگو کر سکیں۔ کسی پر سکون جگہ پر بیٹھتے ہی محب نے کہا۔ "میں ایک ہفتے سے نہ ٹھیک سے سویا، نہ کچھ کھایا، نہ میرا جی کسی کام میں لگا۔ عجیب سی بے چینی تھی۔ فقط آپ سے ملنے کی خواہش لیے بیٹھا رہا۔ پورے ایک ہفتے بعد آج آپ کو دیکھ کر قرار آیا ہے"۔

حسینہ نے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔ "ارے ایسی کیا بات ہوئی ہے جو آپ کو میرے بغیر قرار نہیں آتا؟"

اس نے جھجک کر کہا۔ "مجھے لگتا ہے کہ مجھے آپ سے۔۔ "

"مجھ سے کیا؟"

"مجھے لگتا ہے میں آپ کو چاہنے لگا ہوں"۔

"پہلی ملاقات میں ہی چاہت؟"

"چاہت کے لیے ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ محبت پہلی نظر میں بھی ہو سکتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں کو پہلی نظر میں ہوتی ہے، مجھے بھی ہوگئی ہے"۔

محب کی باتیں سن کر حسینہ ڈر گئی۔ "آپ کی باتوں سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ آپ کے لہجے میں ایسی صداقت نظر آتی ہے مجھے لگتا ہے آپ کی اس کیفیت کا اثر مجھ پر بھی ہو جائے گا۔ پلیز ایسی باتیں نہ کریں پھر میں اپنے آپ پر قابو نہیں کر پاتی۔ پہلی بار کسی نے مجھ سے ایسی باتیں کی ہیں"۔

اپنی باتوں کا اثر حسینہ پر ہوتا ہوا دیکھ کر اسے حوصلہ ملتا ہے اور وہ کہنا شروع کرتا ہے۔ "مجھ پر بھی ایسی کیفیت آج سے پہلے کبھی طاری نہیں ہوئی۔ کبھی کسی کے لیے اتنے شدید جذبات محسوس نہیں کئے۔ اس ایک ہفتے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ میں آپ کے بغیر نامکمل ہوں۔ آپ کے وجود کی کمی کو میں نے شدت سے محسوس کیا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی آج آپ سے مل کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں کسی سایہ دار درخت کے نیچے آ گیا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر انجانی مسرت ہوتی ہے جسے میں نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا ہے"۔

یہ سب سن کر حسینہ رونے لگ جاتی ہے، محب کو ڈر لگتا ہے وہ اس کو منانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ "میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہے تو میں دل سے شرمندہ ہوں پلیز آپ رونا بند کر دیں۔ میں آئندہ ایسی باتیں نہیں کروں گا۔ میرا مقصد آپ کو دکھ پہچانا نہیں تھا بلکہ میں اپنی چاہت کا اظہار کر رہا تھا"۔

حسینہ نے آنسو پونچھ کر کہا۔ "نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے میں آپ کی باتوں کی وجہ سے نہیں رو رہی بلکہ آپ کی باتیں میرے دل پہ اثر کر رہیں جس وجہ سے میں رو رہی ہوں۔ آج سے پہلے کسی نے میرے لیے اس قدر چاہت کا اظہار نہیں کیا اور آپ کے اظہار اس قدر پر تاثیر ہے کہ میں بے اختیار بہک رہی ہوں۔ میں اپنے آپ کو بے قابو ہوتے ہوئے دیکھ کر رو رہی ہوں"۔

یہ باتیں سن کر محب کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور فرط جذبات میں آ کر اس نے حسینہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسینہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی، دونوں نے ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کیا۔ اسی اثنا میں دونوں کے درمیان بہت ساری گھریلو باتیں ہوئیں۔ "آپ کیا کرتے ہیں؟"

"میں بلتستان یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر کر رہا ہوں اور آپ؟

"میں نے گریجویشن کیا ہے اور ابھی کسی پرایوئٹ اسکول میں ٹیچنگ کر رہی ہوں"۔

دونوں اس قدر محو گفتگو تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا کب شام ہوئی۔ شام کی آزان سن کر حسینہ کو خیال آیا کہ اب گھر چلنا چاہیے۔ اس نے محب سے کہا۔ "مجھے دیر ہوگئی ہے اب میں چلتی ہوں۔ زندگی رہی تو کل ملاقات ہوگی"۔

محب نے موقع پا کر کہا۔ "آپ کو دیر ہو رہی ہے تو میں بائک پہ چھوڑ دیتا ہوں میری بائک چوک پہ کھڑی ہے"۔

پہلے تو حسینہ نے منع کیا مگر اس نے زبردستی کی تو اس کے پاس ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ محب اسے ڈراپ کرکے گھر چلا گیا اور رات بھر خوشی کی وجہ سے اس سے سویا نہیں گیا۔

یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلتا رہا اور دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرنے لگے۔ اب دونوں کے پاس ایک دوسرے کا نمبر آگیا تھا لہذا جب کبھی ملاقات نہیں ہوتی تو فون پر گھنٹوں گھنٹوں بات کر لیتے۔ اب حسینہ نے بھی مشرقی شرم کو نظر انداز کرکے محب سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ ان دونوں کو لگتا تھا ان دونوں کی محبت لیلا مجنوں کی محبت سے کچھ کم نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ ایک دن دونوں نے پارک میں ملنے کی بجائے شنگریلا میں ملنے کا پروگرام بنا لیا۔ پریشان چوک سے دونوں محب کی بائک پہ بیٹھ کر شنگریلا کا سفر شروع کیا۔ وہاں پہنچ کر پر سکون ماحول میں دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالیں زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ شنگریلا جھیل کی کشتی میں بیٹھ کر دونوں اپنے مستقل کے خواب بن رہے تھے۔ حسینہ نے پوچھا۔ "آپ میرا رشتہ لینے کب آئیں گے؟"

"مجھ سے اب یہ دوری برداشت نہیں ہو رہی، میرا بس چلے تو میں آج ہی آپ کے ساتھ آپ کے گھر چلا جاؤں"۔

"ارے نہیں نہیں۔ اتنی بھی جلدی نہیں ہے۔ ویسے تو اب میرا بھی آپ کے بغیر گزارا نہیں ہو رہا، بہت جلد میں آپ کی زندگی کا حصہ بننا چاہ رہی ہوں۔ چلیں پھر آپ اتوار کو کسی کو بھیج دیجیے گا"۔ خوشی سے حسینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنا سر محب کے کندھے پر جھکایا۔

"میری زندگی کا سب سے بڑا خواب اور سب سے بڑی حقیقت آپ ہیں اور آپ کو پانے کے لیے میں ہر حد پار کر سکتا ہو۔ جس دن آپ بیوی بن کر میرے گھر آئیں گی اس دن میری زندگی مکمل ہو جائے گی۔ آپ کے بغیر میری زندگی نامکمل ہے۔ جس طرح شنگریلا کی یہ جھیل پانی کے بغیر جھیل نہیں کہلائی جاتی اسی طرح آپ کے بغیر میری زندگی زندگی نہیں"۔ محب کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھیں ایسا محسوس ہوتا تھا یہ باتیں وہ سچے دل سے کہہ رہا ہے۔

اتوار میں ابھی تین دن باقی تھے اور محب کو گھر والوں کو یہ بات بتانے کی کوئی ترکیب نہیں آ رہی تھی اتنے میں حسبِ معمول اس کی امی نے محب کی شادی کی بات چھیڑی۔ وہ اسی موقع کی تلاش میں تھا اس نے کہا۔ "امی مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے میں اسی سے شادی کروں گا"۔

اس کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔ "ارے کون ہے؟ کیسی ہے؟ کہاں کی ہے؟"

"یہیں کی ہے اور بہت اچھی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں"۔

"ارے واہ بات محبت تک پہنچ گئی ہے اور ہمیں کانوں کان خبر نہیں"۔

"امی! ابھی بتا دیا نا۔ بہت اچھی ہے بس آپ رشتہ بھیجیں"۔

رات کو محب کے ابو دفتر سے لوٹ آتے ہی محب کی شادی کا موضوع زیر بحث آتا ہے۔ اس کے ابو کو بھی بیٹے کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اچانک ایک سوال اٹھتا ہے کہ لڑکی کس فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلے تو محب ٹال مٹول سے کام لیتا ہے آخر میں مجبور ہو کر بتانا پڑتا ہے کہ لڑکی کا تعلق شیعہ گھرانے سے ہے۔ یہ سننے کی دیر تھی سب گھر والوں نے اس رشتے سے انکار کیا، محب کی ایک نہ سنی، اس کے ابو نے صاف کہہ دیا "شیعہ گھرانے کی لڑکی اس گھر کی بہو نہیں بن سکتی"۔

اگلے دن محب اپنے ماموں کے گھر چلا گیا ان سے منت سماجت کی مگر انھوں نے بھی رشتہ لے کر جانے سے انکار کر دیا۔ خاندان کے چند دوسرے افراد کے پاس بھی گیا مگر اس کی مراد پوری نہیں ہوئی اور آخر اتوار کا دن آ ہی گیا۔ دن بھر وہ مختلف زاویوں سے سوچتا رہا آخری بار گھر والوں کی منت سماجت کی مگر کوئی تیار نہیں ہوا۔ شام کو نہا دھو کر کپڑے بدل کر وہ حسینہ کے گھر چلا گیا۔ دروازے پر دستک دی حسینہ کی والدہ نے آ کر دروازہ کھولا۔ اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہیں آخر میں اندر بلا لیا۔

کمرے میں حسینہ کے والد بھی بیٹھے ہوئے تھے، حسینہ جلدی جلدی اسے چائے بنانے لگ گئی۔ حسینہ کے والد نے آنے کی وجہ پوچھی محب کا حلق سوکھ گیا تھا بار بار وہ بولنے کی کوشش کرتا رہا مگر الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔ بڑی مشکل سے اس کے منہ سے ایک جملہ نکلا۔ "میں حسینہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں"۔

حسینہ کے والد نے تعجب سے پوچھا۔ "تمھارے گھر میں کوئی بڑا نہیں ہے کیا؟ ہمارے یہاں اس طرح رشتہ لے کر آنے کا رواج نہیں ہے۔ جائیے اپنے بڑوں کو بھیجیں"۔

محب نے نظریں نیچے کرکے جواب دیا۔ "گھر کے بڑے یہ رشتہ کرنا نہیں چاہتے اس لیے میں اپنا رشتہ خود لے کر آیا ہوں۔ میں آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں وہ بھی مجھے چاہتی ہے اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں اسے ہر حوالے سے خوش رکھوں گا"۔

لڑکے کا اعتماد سے جواب دینا حسینہ کے والد کو پسند آیا لہذا انھوں نے اس کی ذاتی زندگی اور آنے والی زندگی کے بارے میں چند ضروری سوالات پوچھ لیے۔ محب ان کے معیارات پر پورا اترتا تھا لہذا انھوں نے رضامندی ظاہر کی۔ اسی دوران حسینہ کی امی نے پوچھا۔ "بیٹا آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟"

محب کا چہرہ زرد پڑ گیا، اس کے جواب دینے سے پہلے حسینہ نے جواب دیا۔ "امی وہ مجھے پسند کرتے ہیں، میں اسے پسند کرتی ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہ سکتے ہیں لہذا فرقہ جو بھی ہو غیر ضروری ہے۔ میں تمام فرقوں سے بالاتر ہو کر ان کی زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہوں"۔

انھوں نے اپنی بیٹی کی بات سنی ان سنی کر دی اور دوبارا وہی سوال دہرایا۔ "آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟"

محب کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ پہ قابو پاتے ہوئے کہا "سنی"۔۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz