Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Azam
  4. Etiat Shah Ki Be Ehtiati

Etiat Shah Ki Be Ehtiati

احتیاط شاہ کی بے احتیاطی

بدنام نگر کے نام کی کئی وجوہات مشہور ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ اس علاقے کا نام بدنام نگر پڑنے کی یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں ہر نوجوان کسی نہ کسی رومانوی داستان کے ساتھ بدنام ہے۔ یعنی زندگی کے رومانوی دور میں ان کا کوئی نہ کوئی واقعہ مشہور ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بدنام نگر میں ایک بندہ رہتا تھا جس کا نام احتیاط شاہ تھا۔

احتیاط شاہ اپنی احتیاط پسندی کی وجہ سے بدنام نگر میں خاصا مشہور تھا۔ وہ عمر کے تیس سال گزار چکا تھا اور بدنام نگر کا شاید پہلا شخص تھا جو آج تک کسی رومانوی داستان کے ساتھ بدنام نہیں ہوا تھا۔ سارے علاقے والے اس کی احتیاط پسندی کی داد دیتے تھے بلکہ علاقے کے لوگوں کے لیے ایک رول ماڈل تھا۔ بدنام نگر کا کوئی لڑکا وقت سے پہلے شادی کی ضد کرتا تو گھر والے احتیاط شاہ کی مثال دے کر اس لڑکے کو سمجھانے کی کوشش کرتے۔ اکثر مائیں اپنے بچوں کو اس جیسا بننے کی نصیحت کرتیں۔

تیس سال کی عمر تک اس نے ہمیشہ دماغ کو سب سے زیادہ اہمیت دی، دماغ سے سوچا، جو بھی فیصلہ لیا دماغ سے لیا، بدنام نگر کے دوسرے افراد سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کے لیے اور اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لیے اس نے کبھی اپنے اوپر جذبات کو غالب آنے نہیں دیا۔ تیس سال کی عمر میں پہنچنے تک اس کا کسی کے ساتھ کوئی افئیر نہیں چلا، کبھی کسی کو چھیڑ چھاڑ کرتے نہ دیکھا نہ سنا۔ اکثر لوگ اس کے اس رویے پر رشک کرتے لیکن اس کے گھر والے پریشان تھے کیونکہ گھر والوں کی سب سے بڑی خواہش اس کی شادی تھی۔ وہ اتنی پختہ عمر میں پہنچنے کے بعد شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور اپنے اسی فیصلے پر مطمئن تھا، اس فیصلے میں بھی اس نے دل کی نہیں بلکہ دماغ کی سنی تھی۔ گھر والوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ شادی کے لیے تیار نہ ہو سکا۔

انہی دنوں میں احتیاط شاہ ایک کالج میں پڑھاتا تھا وہاں طلبا و طالبات دونوں کو پڑھانے کا موقع ملا۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا، اسے طالبات کی جانب سے مختلف قسم کے میسجز آتے رہتے تھے مگر وہ ہر بار نظر انداز کر جاتا تھا۔ ایک دن ایک طالبہ کا میسج آیا۔

"سلام علیکم سر کیسے ہیں "۔

"میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں "۔

"سر میں ٹھیک ہوں، میں جون ایلیا کی شخصیت اور فن پر اسائنمنٹ لکھنا چاہتی ہوں"۔

"جی کوئی مسئلہ نہیں آپ اسی موضوع پر اسائنمنٹ بنائیں"۔

"اوکے شکریہ سر"۔

اگلے دن

"سلام علیکم سر۔ آپ سے ایک بات پوچھوں؟"

"جی پوچھیں"۔

"سر آپ کے اسٹیٹس پہ جو تحریر لکھی ہوتی ہے وہ آپ خود لکھتے ہیں کیا؟"

"جی میں خود لکھتا ہو"۔

"سر آپ کی باتیں بہت مختلف ہیں، بالکل منفرد اور آپ کی باتیں بہت حد تک مجھ سے ریلیٹ کرتی ہیں "۔

"کیوں ایسا کیا ہے جو آپ اس قدر متاثر ہوئیں؟"

"سر میں نے ابھی کچھ دن پہلے اپنا رشتہ ختم کروایا ہے نا اس لیے"۔

"اچھا ایسی بات ہے"۔

"جی سر"

اگلے دن

"سلام علیکم سر"۔

"وعلیکم السلام جی"۔

"سر کیا میں آپ کو کال کر سکتی ہوں؟"

"کیوں کیا بات کرنی ہے؟"

"بس سر آپ کال پہ آئیں"۔

زندگی میں پہلی بار اس کے دل و دماغ کے درمیان ایک عجیب کشمکش شروع ہوگئی اس نے بارہا دماغ کی بات سننے کی کوشش کی مگر جذبات غالب آ گئے اور پھر کال پہ نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ایک لڑکی اس رومانیت کی دنیا میں مسلسل بہکتی چلی گئی اور احتیاط شاہ کی احتیاط پسندی کچھ کام نہیں آئی۔ آہستہ آہستہ اس کے جذبات تفکر و تعقل پر اس قدر غالب آ گئے تھے کہ دماغ اس کو سمجھانا ہی چھوڑ چکا تھا۔ ایک لڑکی جذبات کی سیڑھیاں مسلسل چڑھ رہی تھی اور احتیاط شاہ نے کہیں اسے روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود بھی اسی جذبات کی رو میں بہکتا چلا گیا۔

بات آگے بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ تقریباً ایک مہینے تک چلا، ایک مہینے بعد اسے ہوش آیا اور اس بڑھتی ہوئی قربت کو روکنے اور لڑکی کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ احتیاط شاہ نے زندگی کی حقیقت اور دونوں کے درمیان فطری دوریوں کا تذکرہ کیا اور لڑکی کو سمجھانا شروع کیا کہ اب اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو ایک مہینے کی باتیں درمیان میں ہوئی ہیں ان کو خواب و خیال سمجھ کر بھول جانے میں ہی دونوں کی عافیت ہے۔ لیکن لڑکی اپنی عمر کے حساب سے معصومیت کے ساتھ اس قدر آگے بڑھ چکی تھی کہ اسے واپس جانا ممکن نہیں رہا۔

انہی دنوں میں ایک شام جب لڑکی کی امی کو پتہ چلا کہ لڑکی کسی لڑکے سے بات کر رہی ہے۔ لڑکی کی امی نے اس کو سمجھانے اور حقیقت پوچھنے کی بجائے اس کو مارنا شروع کر دیا اور گھر میں ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس ہنگامی صورت حال کو ہینڈل کرنے یا اس کو برداشت کرنے کی لڑکی میں حوصلہ نہیں تھا لہذا جذبات کی رو میں بہتی ہوئی اپنے رومانی ساتھی کے پاس پناہ لینے چلی گئی۔ اسے فقط اتنا پتہ ہے کہ آگے رومانی ساتھی باہیں پھیلائے اس کا منتظر ہے۔

"ہیلو میں سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس پناہ مانگنے آئی ہوں۔ میرے گھر والوں سے میری لڑائی ہوگئی ہے سو میں اس وقت کالج گیٹ کے سامنے کھڑی ہوں۔ یا آپ مجھے لینے آ جائیں یا میں چھومک پل خودکشی کرنے جاؤں گی"۔

احتیاط شاہ ایک بار پھر اپنی احتیاط پسندی کو بھول گیا، اس کے دماغ میں ایک ہی لفظ "خودکشی" گردش کر رہا تھا اور اس لفظ کو سوچ سوچ کر اس پر خوف طاری ہو رہا تھا۔ اس بار اس کا دل و دماغ دونوں کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ نہ اس پر رومانوی جذبات غالب تھے نہ اپنے آپ کو بچانے کے تدابیر۔ وہ اسی لمحے کالج گیٹ پہ پہنچا اور لڑکی کو لا کر اپنے کمرے میں بٹھایا۔ اس نے لڑکی کو سمجھایا کہ اس طرح دونوں کی بدنامی ہوگی اور دونوں خاندانوں کی بھی بدنامی ہو سکتی ہے لہذا واپس گھر چلی جائے۔ مگر اس وقت لڑکی کی واپس جانے والی کیفیت تھی ہی نہیں۔

احتیاط شاہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو یوں ایک نامحرم کے ساتھ رات گزارنے سے بڑی بدنامی ہو جائے گی اس لیے واپس اپنے گھر چلی جائے۔ اس نے لڑکی سے اس کا موبائل لے کر چیک کیا مگر اس موبائل میں لڑکی نے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کا نمبر ڈیلیٹ کیا تھا جس وجہ سے احتیاط شاہ لڑکی کے گھر والوں سے رابطہ نہیں کر سکا نہ اس کو لڑکی کے گھر کا پتہ تھا۔ احتیاط شاہ کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ اس نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ رات بھر اس کے دل و دماغ کے درمیان ایک عجیب سی کشمکش جاری رہی، کیونکہ اس کے کمرے میں ایک جوان اور حسین لڑکی تھی جس کا وہ جس طرح بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اٹھا سکتا تھا، مگر اس فائدے اور ناجائز فائدے کے حق میں نہ وہ تھا نہ لڑکی تھی۔

لڑکی کی عزت کے معاملے میں اس نے اپنے جذبات پر قابو پانے کے لیے ہر بار دماغ کا ہی سنتا رہا اور اس کے دماغ ایسا کوئی فعل کرنے کے حق میں نہیں تھا جس سے لڑکی کی عزت پامال ہو جائے۔ رات بھر اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے جب صبح ہوئی تو وہ زعم میں تھا کہ اس نے ایک لڑکی کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا، اس کی عزت پامال ہونے نہیں دیا۔ اس کی زندگی بچائی ساتھ ہی اس کی عزت پر حرف آنے نہیں دیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اپنے آپ پر فخر محسوس کر رہا تھا کہ ایک اکیلی لڑکی بھی پوری رات اس کے ساتھ محفوظ رہ سکتی ہے۔

رات بھر میں اس نے لڑکی کو سمجھا کر ذہنی طور پر تیار کیا تھا کہ وہ محفوظ جان و عزت کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جائے۔ لڑکی واپس گھر جانے کے لیے راضی ہوگئی تھی اور جب وہ لڑکی کو گھر چھوڑنے کے لیے باہر نکلا تو پتہ چلا پورے شہر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے اور بدنام نگر میں سب سے زیادہ اس کی بدنامی ہو چکی ہے۔ شہر کی ہر آنکھ اس پر نظر کی سنگ باری کر رہی تھی اور سب کے آنکھوں میں احتیاط شاہ کے لیے نفرت تھی۔ جب وہ لڑکی کو گھر بھیج چکا تھا کہ پولیس نے اس کو پکڑ کر تھانے لے گیا۔ اُدھر لڑکی جب گھر پہنچی تو گھر والوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔

رات بھر دونوں لڑکا لڑکی حوالات میں پڑے رہے، لڑکی کے گھر والوں نے ایک انجان لڑکے کے ساتھ رات گزارنے کے جرم میں اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لڑکی اور لڑکے دونوں نے اپنی اپنی پاکیزگی کی سو سو قسمیں کھائیں اور میڈیکل کرنے کو بھی کہا کیونکہ دونوں کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ مگر نہ گھر والوں کو نہ پولیس والوں کو اس بے گناہی ثابت کرنے کی حاجت تھی نہ فرصت، الٹا دونوں پر سو سو ملامتیں کئیں اور پورے شہر کے ساتھ پولیس اور لڑکی کے گھر والے دونوں پر تھوک رہے تھے۔

اس خطرناک سیچویشن میں لڑکی کے گھر والوں نے لڑکی کو مکمل طور پر اکیلا چھوڑ دیا اور مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا اب تمام ذمہ داری پولیس کے اوپر آ گئی۔ پولیس نے قانونی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر احتیاط شاہ کو دو آپشنز دیے، اول لڑکی سے شادی کرے اور معاملے کو رفع دفع کرے، دوم ایف آئی آر درج کرائی جائے اور کیرئیر کو داؤ پہ لگا کر عدالت کا سامنا کیا جائے۔ لڑکے اور لڑکی کے پاس پہلا آپشن ہی بچا تھا کیونکہ اسی میں ہی دونوں کی بھلائی تھی۔ دونوں نے شادی کرکے کیرئیر کو بچانے کی رضامندی ظاہر کی اس طرح احتیاط شاہ بدنام نگر کا شب سے بدنام انسان بن گیا۔

آج بدنام نگر میں ہر آدمی احتیاط شاہ پر تھوک رہا ہے اور اپنے بچوں سے کہہ رہا ہے احتیاط شاہ نے جو کیا ہے وہ مت کرنا۔ اس واقعے کے بعد احتیاط شاہ کالج میں، اسکولوں میں، گلی کوچوں میں، علاقے اور دوستوں کے درمیان میں اس قدر بدنام ہو چکا ہے کبھی کبھی اسے یوں لگتا ہے جیسے شہر کے کتوں کی بھی اس سے کہیں زیادہ عزت ہے۔ وہ اپنے آپ کو صحیح یا غلط قرار دینے کا اہل ہی نہیں ہے اسی لیے جس طرح شہر کے سبھی لوگ اس پہ تھوک رہے ہیں اسی طرح وہ بھی کراچی میں کسی بند کمرے میں بیٹھ کر آئینے کے سامنے بیٹھے اپنے آپ پہ تھوک رہا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz