Azadi Ka Dhakosla
آزادی کا ڈھکوسلہ
آزادی کو ہم عام طور پر جسمانی آزادی اور عقیدے کی آزادی کے معنوں میں لیتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے انسان جسمانی اور عقیدے کے طور پر آزاد ہونا چاہیے، چھوٹے ذہنوں کے لیے یہی آزادی کی علامت ہے اور ان چھوٹے ذہنوں کو عیاشی کرنے کے لیے جسم کی آزادی چاہیے اور اسی عیاشی کا ازالہ کرنے کے لیے مذہبی آزادی چاہیے۔ ویسے تو جسمانی اور مذہبی آزادی اپنی جگہ اہم ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانشوروں کے لیے، مفکروں کے لیے، اہل علم کے لیے، صاحب شعور کے لیے اور تنقیدی سوچ اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے یہ دو آزادیاں کافی ہیں؟
غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہ دونوں آزادیاں یقینی طور پر ناکافی ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہیں۔ جسم اور مذہب کی آزادی ادنی ذہنوں کی ضرورت ہے اعلیٰ ذہنوں کو فکری آزادی درکار ہے، خیال کی آزادی، سوچ کی آزادی، اظہار کی آزادی اور اختلاف رائے کی آزادی، مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی آزادی چاہیے۔ جن ریاستوں میں یہ ساری آزادیاں محدود پیمانے پر ہی کیوں نہ سہی اگر موجود ہوں تو وہاں کی رعایا کو آزادی منانے کا بھرپور حق ہے اس کے سوا جو قومیں آزادی مناتی ہیں وہ اپنے آپ کو فریب میں مبتلا رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
گلگت بلتستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں کے مقامیوں نے اپنی ذاتی کوششوں سے ان علاقوں کو آزاد کرایا ہے اور ان کی آزادی میں کسی بیرونی مدد شامل نہیں تھی، بلکہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی اور کو گلگت بلتستان کی آزادی کی فکر ہی نہیں تھی۔ یکم نومبر 1947 کو گلگت اسکاؤٹس کے نوجوان نے بغاوت کرکے ڈوگرہ فوج کو مار بھگایا اور اسی دن آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا اور سولہ دنوں تک یہاں ایک مقامی حکومت قائم رہی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس مختصر مدت میں جس کو صدر بنایا گیا تھا وہ خلائی مخلوق کا نمائندہ نہیں تھا بلکہ یہاں کا ایک مقامی تھا۔ اب اگر بلتستان کی بات کی جائے تو یہاں 14 اگست 1948 میں آزادی ملی ہے لہذا ان کی مقامی حکومت بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلتستان کی بنسبت گلگت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے چند دنوں کے لیے ہی سہی مگر آزادی کا سورج تو دیکھا ہے، بدقسمتی دیکھیے بلتستان نے آزادی کا سورج تو کیا اس کی ایک کرن بھی نہیں دیکھی۔
گلگت بلتستان کی حکمت عملی سمجھیں یا مجبوری جیسی بھی صورت ہو قائد اعظم کو ٹیلی گرام لکھ کر اور پلیٹ میں رکھ کر بلا شرائط گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔ اگر پاکستان اس علاقے کو مکمل طور پر قبول کر لیتا جیسے دوسرے علاقوں کو قبول کیا تھا تو بات کچھ اور بن جاتی مگر گلگت بلتستان کو مکمل طور پر قبول کرنا بھی پاکستان کے حق میں نہیں تھا اس لیے نہ تو مکمل طور پر قبول کیا نہ رد۔ اب جب اٹھہتر سال گزرنے کے بعد جب ہم خواب غفلت سے بیدار ہو کر دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم تو ہوا میں معلق ہیں۔ نہ ہم آسمانوں میں اڑ سکتے ہیں نہ پیر زمین پر رکھ سکتے ہیں۔ ہماری پرواز کا اختیار ہمارے پاس ہے نہ زمین پر اترنے کا اختیار۔ نہ ہمارے ہاتھ مکمل طور پر بندھے ہوئے ہیں نہ کھولے ہوئے ہیں۔ بظاہر ہم اپنی مرضی سے ہاتھ چلا سکتے ہیں مگر جب چلانے پہ آتے ہیں تو چلانے کا اختیار ندارد۔
مہذب دنیا کی آزادی کی تعریف کے تناظر میں دیکھا جائے تو گلگت بلتستان مکمل طور پر قید خانہ ہے، یہاں کے لوگوں کی سوچ پہ پہرے بٹھائے ہوئے ہیں، یہاں کے اجتماعی شعور کی بیداری کو روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں، یہاں دانشوری اور مفکری پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے اگر غلطی سے بھی ان کی جھلک کسی کے باطن یا ظاہر میں نظر آئے تو فوراً گرفتار کیا جاتا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ذہن چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے سب قید میں ہیں، فقط انہی ذہنوں کو آزادی دی ہوئی ہے جو غلامی کو نعمت سمجھتے ہیں۔
ریاست نے گلگت بلتستان کو داشتہ بنا رکھا ہے جسے وہ زندگی میں کبھی شادی تو نہیں کرے گی مگر اس کو کسی اور سے شادی بھی نہیں کرنے دے گی۔ داشتہ کی زندگی غلامی کی زندگی سے بدتر زندگی ہے کیونکہ داشتہ جب تک بیڈ روم میں ریاست کا بستر گرم کر رہی ہوتی ہے تب تک محفوظ ہے اور جس دن بستر گرم کرنے میں ذرا بھی کوتاہی دکھائی اسی دن زندگی حرام، امن حرام، سکون حرام۔ یہاں آزادی اضافی سے بھی اضافی شے ہے اور آزادی فقط ڈھکوسلا ہی نہیں ہے بلکہ مہا ڈھکوسلا ہے، اسی ڈھکوسلے میں رہنا سب کی مجبوری ہے کیونکہ عافیت اسی میں ہے اس ڈھکوسلے سے نکلنے کی کوشش موت ہے۔ اٹھہتر سالوں میں جس جس نے آزادی کے اس ڈھکوسلے سے نکلنے کی یا اپنی قوم کو نکالنے کی کوشش کی اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
1947 آزادی کا سال نہیں تھا بلکہ آقاؤں کے تبادلے کا سال تھا، گلگت بلتستان اپنی جدوجہد سے ڈوگروں کی غلامی سے نکل کر اپنی رضامندی سے ریاست پاکستان کی غلامی کا حصہ بن گیا اور یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر سال اس غلامی پر باقاعدہ طور پر جشن منایا جاتا ہے اور آنے والی نسلوں کو اس غلامی کی اہمیت بتایا جاتا ہے۔ یکم نومبر 1947 حقیقتاً آزادی کا دن تھا تو 16 نومبر 1947 غلامی کا دن تھا، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلگت کی آزادی فقط سولہ دنوں پر محیط تھی بدقسمتی دیکھیے بلتستان کو سولہ دن کی آزادی بھی میسر نہیں ہوئی۔
یکم نومبر منانے کا مقصد ہمیں آزادی کے ڈھکوسلے میں بند رکھنا ہے ورنہ گلگت بلتستان میں سوچنے، سمجھنے، بولنے، غور و تدبر کرنے، اظہار کرنے، اختلاف کرنے، حق کے لیے آواز بلند کرنے، ظالم کے خلاف علم بغاوت اٹھانے پر مکمل پابندی ہے اور ان سب پابندیوں کے درمیان آزادی کا ہونا ناممکن ہے لہذا ہم سب حقیقی غلام ہیں اور سب کو غلامی مبارک ہو۔

