Chuk Ke Rakho
چک کے رکھو
گزشتہ دنوں پاکستانی سوشل میڈیا پر زہران ممدانی کا طوطی بول رہا تھا۔ مسلمان کا کسی مغربی ملک میں مئیر منتخب ہونا کوئی نئی بات نہیں البتہ زہران ممدانی کی سوشل میڈیا کمپین اتنی شاندار تھی کی وہ ہر جگہ موضوع بحث بن گئے۔
پاکستان کا نیویارک شہر سےکچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی زہران ممدانی پاکستانی نثراد ہیں، چلیں خیر! مگر کیا ممدانی کی جیت سے نیویارک میں شریعت قائم ہوجائے گی؟ اس سے پاکستان کا قرض اتر جائے گا؟ یا پاکستانیوں کو امریکی ویزے ملنا شروع ہوجائیں گے؟ کچھ بھی نہیں، تو پھر پاکستان میں تھڑے بازوں نے اپنے اپنے تھڑے کیوں کر نکال لیے؟
اس انتخاب میں سب سے منفرد چیز زہران مدانی کا مسلمان اور مہاجر ہونا ہے۔ پاکستان میں موضوع بحث ہونےکی اصل وجہ مہاجر یا مسلمان ہونا ہرگز نہیں تھی بلکہ اصل وجہ فقط ایک فینٹیسی تھی جسے کہیں کہیں مہاجر اور مذہبی ٹچ لگا کر بیچا گیا۔ ھمارے ہاں سوشل میڈیا یا مین سٹریم میڈیا صرف ٹرینڈز کو ہی تو فالو کرتا ہے۔ جس کی گڈی چڑھی ہو یا جس موضوع پر ریچ ملتی نظر آئے وہی اس ملک کا ہاٹ موضوع بن جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی لگا۔
ھم لوگوں کا جذبۂ ایمانی دیدنی مگر غیرت ایمانی کا کچھ کہہ نہیں سکتے۔ میرے خیال سے ممدانی جیسے لوگوں کو ھم ایسے منافق، موقع اور مفاد پرست لوگوں کی نیک تمناؤں کی قطعی ضرورت نہیں اور نہ ہی امریکہ جیسے سیکولر و جمہوری سپر پاور کو ھم جیسے تنگ نظر اور غیر جمہوری سوچ رکھنے والے لوگوں سے کسی جمہوری سند یا پذیرائی کی ضرورت ہے۔
البتہ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے ساتھ انتہائی شرمناک رویہ اپنایا۔ خیر! افغانی تو دور یہاں تو قیام پاکستان اور سن اکہتر سے آئے مہاجرین کے ساتھ تفریق موجود ہے۔ ایسے میں ریاست کے باشندوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک میں موجود مہاجرین کے معاملات کو زیر بحث لا سکیں۔ مزید یہ کہ یہاں اقلیتوں سے امتیازی سلوک کے بھی شواہد موجود ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں جب جب کسی شخص نے کسی سیاست دان یا عام آدمی کو ماں بہن کی گالی سے بھی بڑھ کر کوئی گالی دینی ہو تو اسے "یہودی" ایجنٹ کہہ کر وہ خود کو کوئی تیس مار خان سمجھتا ہے۔ ایسی صورت میں ھم اور ھمارے گیان غیر ضروری، غیر فعال اور غیر فطری ہیں۔
افغان مہاجرین سے متعلق پاکستان میں ہمیشہ غلط فہمیاں ہی رہی ہیں۔ افغان مہاجرین کو اپنا مقروض یا احسان فراموش سمجھنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان نے مہاجرین کی آبادکاری کے عوض، کم و بیش تین سو ملین ڈالر کا رینٹ وصول کیا۔ اگر پھر بھی ان کم بختوں نے کوئی تھوڑا بہت نمک کھا ہی لیا، تو انھیں مسلمان بھائی سمجھ کر اللہ کے نام پر ہی بخش دینا چاہیے تھا۔ مگر ھم نے تو انھیں سیدھا سیدھا نمک حرام ہی قرار دیا۔ خیر، لیکن ہمیں خود سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کن لوگوں کی تجرباتی مشق کے سبب لاکھوں افغان بے گھر اور کروڑوں اپنے مستقبل سے محروم ہوگئے؟
ہمیں بطور قوم اپنے طرز منافقت کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مجھے، آپ کو زہران ممدانی کی جیت پسند آئی ہے، تو پھر اپنے دماغ کو بھی تھوڑی وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک مہاجر اور ھم مذہب کو ایک غیر مسلم شہر کا مئیر بننے ہر بغلیں بجاتے ہیں مگر دوسری طرف اپنی ہی ریاست میں مہاجر اور غیر مسلموں سے امتیازی سلوک رکھتے ہیں۔ خود کو عالم اسلام کا ٹھیکیدار سمجھنے والے پاکستانی اپنے ہی ریاست میں ھم مذہب مہاجرین کو را کا ایجنٹ اور نمک حرام کیوں کر سمجھتے ہیں؟ مزید یہ کہ ھم لوگ اپنی ہی ریاست میں غیر مسلموں کو مذہبی عینک کی بجائے انسانی آنکھ سے دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟
عرض صرف اتنی ہے یا تو رویے درست فرمائے جائیں یا پھر اس طرح کی پھڑیں نہ ماری جائیں۔ اگر تو یہ محض وقت گزاری اور شغل میلے کا سامان ہے تو پھر "چک کے رکھو"۔

