Positivity
پوزیٹیوٹی
مثبت اور منفی کی جنگ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ زمین پر زندگی کے آغاز سے پہلے عرش پر حضرت آدم علیہ اسلام کی تخلیق اور انہیں شجر ممنوعہ سے اجتناب کی تنبیہ سے ہی مثبت اور منفی کی چپقلش شروع ہوئی اور دنیاوی زندگی میں توحید و کفر اور نیکی و بدی سے ہوتی ہوئی جنت اور جہنم پر ختم ہو گی۔ شیطان کے ورغلانے پر حضرت آدم علیہ اسلام اور حضرت حوا نے شجر ممنوعہ چکھ لیا جسکا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کو جنت سے نکال کر بطور سزا زمین پر بھیج دیا گیا۔
یہاں سے اس بحث نے جنم لیا کہ آیا انسان کو بطور سزا زمین پر بھیجا گیا ہے اور یہ کہ انسانی زندگی تا قیامت ایک سزا کی مانند ہے جو محرومیوں، دکھوں، غموں، پریشانیوں، مجبوریوں اور بیماریوں سے گھری رہے گی اور اسکا انجام ایک ازیت ناک موت ہو گی۔ بقول شاعر
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
یہاں سے Positivity یعنی مثبت طرزِ فکر وعمل کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ حضرت آدم علیہ اسلام کو بطور سزا دنیا میں بھیجا گیا مگر انہوں نے منفی طرزِ عمل کے زیرِ اثر مایوس ہو کر بیٹھ جانے اور خود کو ملامت کرنے کی بجائے اللہ کی مشیت کو قبول کرتے ہوئے اللہ ہی کی زات پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی کو زندہ دلی سے جینا شروع کر دیا۔ نسل انسانی کی افزائش کی، محنت و مشقت سے کھیتی باڑی کی، آنے والی نسلوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے خانہء کعبہ کی تعمیر کی اور تاقیامت آنے والے انسانوں کے لیے Positivity کی عملی مثال چھوڑ کر گئے۔
حضرت آدم علیہ اسلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء اور رسولوں نے لوگوں کو اللہ کے پیغام کی طرف بلایا اور جہالت کے اندھیروں میں Positivity کا نور پھیلا۔ مفہوم حدیث ہے، "تمام انبیاء پر آزمائشیں آہیں مگر مجھ پر ان سب سے زیادہ آزمائشیں آئیں "، اس حقیقت کے باوجود ہمارے نبی کریمﷺ سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے۔ یہ کائنات میں Positivity کی سب سے بڑی مثال تھی اور اسکا نقطہ آغاز آپﷺ کا مبارک گھرانہ تھا۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے، "تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے زیادہ اچھا ہوں "۔
تو میرے پیارے پڑھنے والو، Positivity صرف Good Vibes Only کے فلسفے تلک محدود نہیں ہے اور نہ یہ صرف Tony Robbins کے پر جوش لیکچرز یہ Oprah Winfrey کے ٹی وی شوز تک مقید ہے۔
بحثیت مسلمان اگر ہم نبی ﷺ کی زندگی کا تفصیلی مطالعہ کریں اور یہی نہیں بلکہ اس پر ممکنہ حد تک عمل بھی کریں تو ہم اپنے معاشرے میں Positivity کا استعارہ بن سکتے ہیں جس کا نقطہ آغاز اوپر دی گئی احادیث مبارکہ سے کیا جا سکتا ہے کہ، "آزمائشوں کا سامنا مسکرا کر کرنا ہے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا ہے"۔ یقین جانیے معاشرے میں Positivity کا انقلاب آجائے گا بس آزمائش شرط ہے۔