Tajalli
تجلی
سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ برس ہا برس سے سچ اور جھوٹ شانہ بشانہ عازم سفر ہیں اور برس ہا برس سے ہی دونوں میں یہ تکرار جاری ہے کہ دونوں میں کون زیادہ مضبوط، کون زیادہ ضروری اور کون زیادہ سود مند ہے۔
یوں تو ہر دو کے اوپر بحث ازل سے جاری ہے اور ابد تک اس کے رکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، مگر آئیے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ "روسی فولک ادب" اس کے بارے میں کیا بیان کرتا ہے۔
"ایک دن دونوں نے طے کیا کہ دنیا میں چلیں اور لوگوں سے اس کا فیصلہ کروائیں۔ جھوٹ اچھلتا کودتا، قہقہے بلند کرتا، ٹیڑھے میڑھے راستوں میں آگے بڑھتا رہا جبکہ سچ کچھ سوچتا ہوا، افسردہ افسردہ اور سیدھی راہوں پر چلتا رہا۔ جہاں بھی جھوٹ کے قدم گۓ لوگ مطمئن اور پرسکون نظر آنے لگے۔ نہ دھوکہ دہی پر کسی کو شرم محسوس ہوتی نہ جھوٹ بولنے پر۔ جبکہ سچ جہاں بھی پہنچتا لوگوں کے چہرے بجھ جاتے، ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے۔ لوگوں نے سچ کے لیے تلواریں کھینچ لیں، زخم خوردہ زخموں کا بدلہ لینے اٹھ کھڑے ہوۓ، شوہر نے بیوی کو اور اس کے عاشق کو قتل کر دیا، وہ خون خرابہ ہوا کہ توبہ ہی بھلی۔ اس کے بعد لوگوں نے سچ سے ہاتھ جوڑ کر توبہ کر لی اور جھوٹ کو اپنا مرشد و مربی مان لیا"
درج بالا کہانی سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ لوگوں کو اس کتاب کی مزید اچھے طریقے سے سمجھ آ جاۓ
جیسے سچ اور جھوٹ میں ازلوں سے بحث جاری ہے بالکل اسی طرح "شیعہ سنی بحث" بھی چودہ سو سال سے موجود ہے اور ہر آدمی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں۔ شیعوں کے پاس اپنے نکات موجود ہیں اور اہل سنت اپنی دلیلوں پر تکیہ کرتے ہیں۔
اب اگر کوئی تاریخ کا طالب علم حق بات ڈھونڈنے کی کوشش کرے تو بہت سے مسائل آڑے آ جاتے ہیں۔ مثلاً اہل تشیع سنیوں کی کتابوں کو نہیں مانتے اور اہل سنت کہتے ہیں کہ شیعہ عالموں نے اپنی کتابوں میں اول فول بکا ہے۔ ہاں اگر اہل تشیع ہماری کتابوں سے کچھ نکال کر لائیں تو کچھ بات سنی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر تیجانی سماوی نے (اللہ پاک ان کی منزلیں آسان فرمائیں) اس بات کا خوب حل ڈھونڈا جس کے نتیجے میں یہ کتاب معرض وجود میں آئ۔ آئیے ذیل میں دیکھتے ہیں کہ یہ کتاب کیا ہے، کس بارے میں ہے اور مسائل کے حل میں کس طرح معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر تیجانی نے تصنیف فرمائی ہے جو کہ تیونس کے ایک اہل سنت گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ چھوٹی عمر سے ہی دین سے شغف کی بنا پر آپ کو قرب و جوار میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور جوانی میں قدم رکھتے رکھتے آپ اچھے خاصے عالم بن چکے تھے۔ دین کی خاطر گھر سے نکلے کہ راستے میں آپ کی ملاقات ایک شیعہ عالم سے ہوگئی، جس نے آپ کو شیعہ مذہب کی دعوت دی۔ چونکہ آپ خود ایک عالم دین تھے تو آپ نے اُن عالم کے اعتراضات کو خوب رد کیا۔ مگر جب اس عالم نے آپ کو اہل سنت کی کتابوں سے نکات نکال کر دیے تو آپ شش و پنج میں پڑ گۓ اور یوں آپ نے شیعہ مذہب کا مطالعہ شروع کیا۔
اس کے بعد ایک لمبی کہانی ہے کہ آپ کیسے اور کن کن راستوں سے ہو کر گزرے، کیسے آپ نے ہر دو مذاہب کا مطالعہ کیا اور دونوں کا تقابل پیش کرتے ہوۓ اعتراضات کے جواب دیے۔ میں یہاں صرف کچھ نکات بیان کرنا چاہوں گا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب کسی عقیدت کے شیرے میں لتھڑے عالم نے نہیں لکھی، بلکہ ایک پڑھے لکھے انسان کی دستاویز ہے جس نے ہر واقعہ کی صحت کے لیے قرآن و حدیث کا سہارا لیا ہے۔
1۔ سب سے پہلے آپ نے صحابہ کے بارے میں بحث کی ہے۔ اہل سنت جو تمام صحابہ کو معصوم مانتے ہیں، ان کو رد کیا ہے اور صحابہ کے تین درجات قرآن کی آیات سے ثابت کیے ہیں۔ پھر تاریخ میں نظر دوڑاتے ہوۓ واقعہ صلح حدیبیہ، واقعہ قرطاس، واقعہ اسامہ بن زید اور صحابہ کی ارتداد شکن کاروائیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
2۔ اس کے بعد اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ حضور پاک (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کے دور میں جو دین تھا کیا آپ کی رحلت کے بعد بھی وہی دین برقرار رہا؟ یا اس میں کوئی ردوبدل کر دیا گیا تھا؟ اگر ردو بدل کیا تھا تو وہ کون لوگ تھے۔ جن کے سر ان کا سہرا سجتا ہے؟
3۔ حضور پاک (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کو بعد خلافت جس طریقہ سے تقسیم ہوئی، اس پر بھی ایک الگ زاویہ سے بحث کی گئی ہے۔ سنی اگر اجتہاد بالراۓ کو مقدم رکھتے ہیں تو اس کے برعکس علامہ نے خلافت کی نص قرآن سے اٹھائی ہے اور امت مسلمہ پر افتاد کا ذمہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کرنے پر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اگر رہی بات نص حدیث کے بارے میں اجتہاد کی تو وہ تو بیشمار ہیں۔
4۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اتباع علی اور اتباع اہل بیت (علیہم السلام) پر بہت سی احادیث کے حوالے پیش کیے ہیں۔ یہ اگر کوئی ماننا چاہے یا نہ ماننا چاہے یہ اس کے اوپر ہے، مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نبی کریم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اپنے بعد امت کے تمام غموں کا مداوا اپنی زندگی میں ہی کر گۓ تھے۔ اب اگر امت نے ان تمام راستوں کو چھوڑ کر دوسرے راستے اپنا لیے تو اللہ اور اس کا رسول (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اس بات سے بری الذمہ ہیں۔