Muwazanah Anis o Dabber
موازنہ انیس و دبیر
دوستو جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں اردو ادب کی اصناف میں سے نثر کا شیدائی ہوں اور شاعری مجھے صرف سننے کی حد تک ہی اچھی لگتی ہے۔ گو کہ میں نے 8,10 شاعری کی کتب بھی منگوا رکھی ہیں، مگر پڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یا تو میں شاعری پڑھنے کے آداب سے ہی واقف نہیں ہوں۔ ان سب کے باوجود بالآخر میں شاعری کی پہلی کتاب پڑھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اُس کی وجہ تسمیہ بھی سن لیں۔
ماسٹرز کے کورس میں مراثی کے باب میں میر انیس کا کچھ کلام شامل تھا۔ کورس کلئیر کرنے کے لیے وہ پڑھنا مجبوری ٹھہرے مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے، جوں جوں میں وہ مرثیے پڑھتا گیا میری آنکھیں، کان کھلتی گئیں ساتھ ہی جسم کے تمام اطباق روشن ہو گئے۔ وہ پڑھ کر ایک دفعہ دل میں خیال آیا یار کیا کمال کا بندہ ہے۔ اسے تو لازمی پڑھنا ہے، جس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو ان کی شاعری نہایت آسان فہم لگی دوسرا واقعہ کربلا سے تھوڑا بہت لگاؤ تھا۔ انسان جس چیز کو ٹھان لے اللہ پاک اس کے اسباب خود ہی مہیا کر دیتے ہیں۔ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اسی دوران ہمارے ایک دوست کی ویڈیو فیسبک پر نظر آئی، جس میں انہوں نے کمال سوز و درد سے درج ذیل مرثیہ پڑھا۔
بھیا میں کہاں سے تمہیں لاؤں کیا کروں؟
کیا کہہ کے اپنے دل کو میں سمجھاؤں کیا کروں؟
کس کی دُہائی دوں کسے چِلاّؤں کیا کروں؟
بستی پرائی ہے میں کدھر جاؤں کیا کروں؟
دنیا تمام اُجڑ گئی ویرانہ ہوگیا
بیٹھوں کہاں کہ گھر تو عزا خانہ ہوگیا
اس مرثیہ نے ایسا اثر کیا کہ میں نے سوچ لیا، اب تو ان کا کلام پڑھنا ہی پڑھنا ہے (اس کی تاثیر کچھ دل والے ہی سمجھیں گے)۔ آئیے اب ذرا کتاب پر بات ہو جائے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں اردو ادب کے دو بڑے مرثیہ نگاروں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مرزا سلامت علی دبیر اور میر ببر علی انیس۔ یہ دو مرثیہ نگاری کے ایسے درخشاں ستارے ہیں، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ دونوں صاحبان نے بلامبالغہ کوئی ہزاروں مرثیہ ہی لکھے، جن میں قطعے، ربائیاں، مثنویاں سب شامل ہیں۔ ویسے تو کتاب کا نام موازنہ انیس و دبیر ہے مگر پڑھنے کے بعد یہ آپ کو میر انیس کا کلیات لگتا ہے۔ 80 سے 90 فیصد کتاب میں میر صاحب کے کلام سے بحث کی گئی ہے اور آخری کچھ حصے میں موازنہ کیا گیا ہے۔
میرا خیال ہے شاعری الگ الگ کی جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔
سب سے پہلے اگر مضامین کی بات کی جائے تو وہ دونوں کے ہاں بھرمار ہے۔ سانحہ کربلا سے متصل کوئی چھوٹا سے چھوٹا واقعہ بھی ایسا نہیں، جو آپ صاحبان کی نظر سے بچا ہو۔ پھر چاہے وہ امام کے رخصت کے وقت بالی سکینہؑ سے مکالمہ ہو، حضرت سکینہؑ کا اپنے چھوٹے بھائی حضرت علی اصغرؑ سے بات چیت ہو، امام کے گھر والوں کو مدینہ والے رخصت کرنے آئے ہوں، جنگ کا میدان، یزیدیوں سے بحث، گھوڑا، تلوار، نیزہ، بھالا، صبح شام، بھوک پیاس، مظالم دلجوئیاں، الغرض کربل کا ایک ایک لمحہ آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جائے۔
اگر لفظی رعایت کی بات کی جائے تو میر انیس نے انتہائی سادہ، سہل اور پر اثر الفاظ میں ہر نقشہ پیش کیا ہے۔ جو پڑھتے ہی دل میں کھب جاتا۔ مرزا صاحب نے بہت بھاری الفاظ استعمال کیے ہیں، جو کہ مبالغہ کی حد کو چھو جاتے ہیں اور مضمون سے ہٹ جاتے ہیں۔
تخیل کی اگر بات کی جائے تو مرزا صاحب اس میں میر انیس سے بہت آگے نظر آتے ہیں، مگر اس کو لپیٹنے میں کچھ مار کھا جاتے ہیں۔
یہ تو چند چیزیں ہیں، جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرقہ کی بحثیں، الفاظ کا صحیح چناؤ، شاعری کی تراکیب اور نہ جانے کس کس چیز پر بحث کی گئی ہے۔ شاعری کو سمجھنے کے لیے بہت اچھی کتاب ہے۔