Dil Bhatkay Ga
دل بھٹکے گا
اشفاق احمد نے ایک دن اپنی ماں سے کہا۔ ماں جی میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔۔
اُن کی ماں نے ان سے پوچھا، "پتر یہ جو اتنی کتابیں پہلے لکھی ہوئی ہیں یہ کم ہیں کیا؟ اور تو کیا لکھے گا؟"
آپ نے جواب دیا، "ماں، ان میں پورا سچ نہیں لکھا ہوتا۔ میں ایک ایسی کتاب لکھوں گا جو سچ پر مبنی ہو"، اشفاق احمد کی ان پڑھ ماں نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔
"پتر اگر سچ ہی لکھنا ہے تو اپنے بارے میں لکھیں۔ لوگوں کے بارے میں نہ لکھتا رہیں"۔۔
مشورہ تو اشفاق احمد کی ماں نے ان کو دیا تھا مگر مجھے لگتا ہے "احمد بشیر" کی روح بھی اس وقت پاس ہی کہیں بھٹک رہی تھی اور اس نے یہ بات اچک لی تب جا کر یہ کتاب وجود میں آئی۔
آپ بیتیاں بہت لوگوں نے لکھیں بہت بہت اچھی بھی اور ایسی بھی جنہیں کھولتے ہی دل اوب جائے۔ ایسے میں"احمد بشیر" کی یہ آپ بیتی (جو کہ ناول کی صورت میں ہمارے سامنے ہے) ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ احمد بشیر جو اپنے بارے میں لکھتے ہیں، "میں نے صحافت جیسے بدنام پیشے میں نام پایا" اپنے دور کے ایک منجھے ہوئے بیباک صحافی تھے جن کا سبھاؤ بقول ان کی بیٹی "بشریٰ انصاری" کے بدتمیزی کی حد تک سخت اور تیز تھا۔ کاش یہ آج کے لفافہ صحافی ان کی یہ کتاب ایک دفعہ پڑھ ہی لیتے تو ان کو معلوم پڑتا کہ اصولوں کی خاطر مشکلات کا سامنا کرنا کسے کہتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی مالی تنگدستیوں کی ایک داستان مسلسل ہے جسے پڑھ کر جہاں ایک طرف رونا آتا ہے وہیں دوسری طرف آپ کی لازوال جدوجہد کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ساڑھے آٹھ سو صفحات کے اس ناول میں سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ایسے ہیں جنہیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کتاب پڑھتے پڑھتے مجھے ایک بات سوجھی، ایک دفعہ میں نے کہیں سنا تھا کہ قدرت اللہ شہاب کی مشہور زمانہ کتاب "شہاب نامہ" اتنی پایہ کی کتاب ہے کہ اسے پاکستانی عدالتوں میں ریفرنس بک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جب میں نے دونوں کتابوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور خود سے یہ سوال کیا کہ اگر اس کتاب سے پاکستانی ادارے اور عدالتیں استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیں تو کیسا رہے گا؟ تو جواب مجھے یہ ملا کہ ایسے بڑے بڑے نقاب اتریں گے اور بت ٹوٹیں گے کہ جن کا متحمل کم از کم ہمار معاشرہ فی الحال نہیں ہو سکتا کیونکہ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ہم "بت پرست" لوگ ہیں۔ اگر کوئی بندہ ہمارے معاشرے میں کوئی اچھا کام کر گزرے تو ہم اس کی کرسی نعوذ باللہ اللہ پاک کی کرسی کے ساتھ اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔
احمد بشیر صاحب چونکہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے جس وجہ سے ان کی رسائی بلاواسطہ کئی اعلیٰ شخصیات تک تھی اور چونکہ آپ بدتمیزی کی حد تک سچے انسان تھے اور کسی کے معاملے میں لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے، تو اس کتاب میں اگر پاکستانیوں کے کوئی ایسے بت ٹوٹے، تو ان کی ساری ذمہ داری مصنف پر ہوگی۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہماری حکومت کس ڈگر پر چل رہی تھی، آیئے آپ کی کتاب کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔۔
ہمیں ہمیشہ سے یہ بتایا گیا کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوگئی تھی اور آجکل کی نسل اس ملک کو بیچ کر کھا گئی۔ وہُ تو اب سمجھ آتی ہے کہ ہمارے "معززین" نے شیوہ یہ اپنایا کہ انگلی ہمیشہ دوسروں پر اٹھا رکھی تاکہ ان کی اپنی چوریوں کی طرف دھیان نا جائے ورنہ پاکستان بننے کے فوراً بعد بیت المال کا جو محکمہ بنا اور اس میں سونے کے زیورات جو معززین نے "حفاظت" کی غرض سے اپنے پاس رکھے، اس کا آنکھوں دیکھا مفصل حال اس کتاب میں پڑھ لیں۔۔
اس کے بعد مسلم لیگی نوابوں کا حال پڑھ لیں جنہوں نے پنجاب کی تمام اچھی اچھی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو شروع میں پاکستان بننے کے مخالف تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کی گاڑی چل پڑی ہے تو وہ ان زمینوں پر گود گئے اور پاکستان پر قبضہ کر لیا (آج وہ سب نواب خود کی جدی پشتی نواب بتاتے ہیں)۔۔
یہاں ایک اور بات بہت پتے کی دیکھنے کو ملتی ہے کہ محمد علی جناح آخری دم تک مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک نہیں بلکہ "تحفظات" مانگتے رہے مگر گاندھی، نہرو اور کانگریس کے دوسرے اکابرین نے ہندوستان تقسیم کروا لیا مگر مسلمانوں کو تحفظات نہ دیے۔ وہیں دوسری طرف لیاقت علی خان جو اپنی کشمیر پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں تیزی سے غیر مقبول ہو رہے تھے نے پاکستانیوں کو گرفتار کرکے امریکی نمک کا حق ادا کیا۔
اس کے بعد پاکستان کے قومی شاعر "ابو الاثر محمد حفیظ جالندھری" کہ جن کو غریب اور ولی صفت ظاہر کرنے کے لیے ہم ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، نے کیسے غدر کے بعد جھوٹے کلیم کے ذریعے اردو بازار میں دوکان اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں دو کوٹھیاں ہتھیائیں، وہ سب بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت بھی کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ کیسے غرور و نخوت کی تصویر بنا بیٹھا ہوتا تھا۔ اس کی شخصیت میں اس کی پشتی جاگیر کو کتنا عمل دخل تھا اور وہ تاریخ سے صرف نظر کرکے ملک کو کیسے گھڑے میں گرا گیا (گو پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو اکیلے کا ہاتھ نہ تھا پھر بھی بھٹو ایک اہم مہرہ ضرور تھا)۔ بھٹو، یحییٰ اور مجیب سب کے سب امریکی کھیل کھیل رہے تھے، جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔
ہماری حکومت کیسے ہماری سوچوں پراثر انداز ہوتی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب ایوب خان کی حکومت رشوت پر مضمون لکھوانا چاہتی تھی تو مولوی نیاز علی کوثر سے رابطہ کیا گیا۔ ان کے سامنے جب مدعا پیش ہوا تو آپ نے کمال معصومیت سے سوال کیا؟
"حضور مضمون رشوت کے حق میں مطلوب ہے یا اس کے خلاف؟"
پاکستان میں سیاست کا کاروبار کن اصولوں پر کیا جاتا ہے اس بارے میں احمد بشیر صاحب لکھتے ہیں۔
"ہمارے ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ انہیں کسی خاص اقتصادی یا سیاسی نظام کا وعدہ بھی کرنا نہیں پڑتا۔ چرب زبانی اور اسوہ رسول ﷺ کے بیان پر گرفت ہو تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے"۔
پروفیسر عبد السلام وہ پہلے پاکستانی تھے جن کو نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ حساب اور فزکس میں اللہ پاک نے آپ کو خاص طور سے نوازا تھا۔ عقیدے کے اعتبار سے آپ احمدی تھے۔ ایک دفعہ آپ نے پاکستان میں یونیسکو کی مدد سے فزکس کا ایک ریسرچ سینٹر قائم کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان میں احمدیوں کے خلاف تحریک کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب قوم کے سامنے اپنا موقف بھی پیش نہ کر سکے۔ ایوب خان کی مخالفت کی وجہ سے یہ سینٹر پاکستان کی بجائے ٹریسیٹے میں قائم ہوا جس نے تھیوریکل فزکس میں کارنامے انجام دیے۔
مصنف نے قدرت اللہ صاحب سے جب اس بارے دریافت کیا تو ان سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا بجز اس کے کہ شاید یہی اللہ کی مرضی تھی۔ اپنی حماقتوں کی ذمہ داری اللہ پر ڈالنا ہی اسلامی کلچر ہے۔
وہ ریسرچ سینٹر پاکستان میں نہ بننے کی وجہ سے پاکستان کو اس مرکز میں جو نقصان ہوا، اس کا خمیازہ ہم اور آنے والی نسلیں بھگتیں گی اور اس سوال کا جواب مانگنے میں حق بجانب ہوں گی۔۔