Chalte Ho To Cheen Ko Chaliye
چلتے ہو تو چین کو چلیے
شروع شروع میں جب میں نے اپنی کورس کی کتابوں سے جان چھڑوانے کے واسطے والد صاحب کی لائیبریری میں نقب لگانا شروع کی تو نسیم حجازی کے ناول میرے ہاتھ لگے۔ جب وہ پڑھ بیٹھا پھر سفرناموں کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سفرنامہ تارڑ صاحب کا "خانہ بدوش" پڑھا (جو کہ اچھی خاصی معقول کتاب ہے۔ بعد میں پتہ نہیں تارڑ کو کیا ہوگیا)۔ اس کے بعد ابن انشاء کا سفرنامہ "آوارہ گرد کی ڈائری" ہاتھ لگا، جس میں مصنف نے یورپ کا سفر کیا تھا۔
بخدا کیا مزے مزے کی باتیں لکھی تھیں اس میں (تب ہمارے ملک میں انٹرنیٹ ابھی شروع ہوا ہی چاہتا تھا تو باہر کی دنیا سے ہمارا رابطہ فقط ان کتابوں کے ذریعے ہوتا تھا کہ سینما وغیرہ جانے کی ہمیں عادت نہ تھی) کہ ہماری تو رال ٹپکنے لگی جب ہمیں پتہ چلا کہ باہر تو "لڑکا لڑکی راضی کیا کرے گا قاضی" والے مقولے پر عمل کیا جاتا ہے اور تولید نسل کے لیے شادی کا جھنجٹ پالنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تب سے ہی میں ابن انشاء کا فین ہوگیا اور اس کی باقی کتابیں بھی ایک ایک کرکے پڑھتا چلا گیا۔
یوں تو سفرنامے بہت سے مصنفین نے لکھے ہیں۔ جن میں مستنصر حسین تارڑ کا نام سب سے اوپر ہے۔ ویسے مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مستنصر کو اتنا زیادہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ میں نے تو اس کے جتنے بھی سفرنامہ پڑھے، ان میں خانہ بدوش اور نکلے تیری تلاش میں کچھ کام کے لگے۔ باقی سفرنامہ اور ناول میں نے تو بس حلق سے ہی اتارے۔ ہاں ایک بات میں یہاں ضرور کہنا چاہوں گا کہ تارڑ کی کتاب "منہ ول کعبے شریف" جو کہ اس کا سفرنامہ حج ہے کمال کی کتاب ہے۔ مطلب میری بہت پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ خیر یہ تو سفرناموں کی بات ہوگئی، چلیے آج کی کتاب پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں۔
یہ ابن انشاء کا سفرنامہ چین ہے۔ جو آپ نے ہمراہی ادیبوں کے ساتھ دوست ملک کی دعوت پر کیا تھا۔ پہلے اس کتاب کے موضوعات کی تھوڑی بات کر لی جاۓ، اس کے بعد مصنف کے انداز بیان پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا۔
یہ سفر چونکہ 1966 میں کیا گیا تھا۔ جب کہ انقلاب چین کو ابھی محض سترہ سال ہی ہوۓ تھے تو اس کتاب میں ان کی جابجا محنت کی داستان آپ کو پڑھنے کو ملے گی۔ کیسے چینیوں نے روس سے علیحدگی کے بعد دس ماہ میں دس بلند و بالا عمارات کھڑی کر دیں، جو کہ انقلاب کے دس سالہ خوشی کے موقع پر حکومت کی طرف سے عوام کو تحفہ تھی۔
چینی مردوں اور عورتوں کا شانہ بشانہ کام کرنا اس قوم کی ترقی کا ایک اور اہم راز ہے۔
کیسے چینی یونیورسٹیوں میں اردو زبان کی نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے، بلکہ پی ایچ ڈی تک کروائی جاتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اردو پڑھانے والے تمام اساتذہ چینی ہیں اور ایسی فر فر اردو بولتے ہیں کہ بڑے بڑے اردودان شرما جائیں۔
اس کتاب کا سب سے خوبصورت باب میری نظر میں وہ تاریخی مضمون ہے۔ جو مصنف نے چینیوں کی جدوجہت کی کہانی کی سورت میں ہمارے گوش گزار کیا ہے۔ جس کو لانگ مارچ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک سال پر محیط لانگ مارچ میں چھ سے آٹھ ہزار میل کا راستہ طے کیا گیا، جو خطرناک گھاٹیوں، یخ بستہ پہاڑوں، گھنے جنگلات، غدار دلدلوں اور دشمن کی بے ہناہ افواج سے پر تھا۔ اور جس میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی اور صرف ایک تہائی اپنی منزل پر پہنچ پاۓ، جنہوں نے دوسری جانب جا کر ایک نۓ چین کی بنیاد رکھی۔
اگر اس کتاب کے انداز بیان کی بات کی جاۓ تو میں سفرناموں میں سب سے اوپر ابن انشاء کو رکھوں گا۔ اسے کیں سفرناموں کا "غلام عباس" کہوں گا کہ جیسے غلام عباس افسانہ لکھتے ہوۓ خط مستقیم سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، بعینہ ابن انشاء بھی اپنے سفرناموں میں کوئی اوٹ پٹانگ بات نہیں کرتا۔ اگر منظر کشئی کرتا ہے تو بہت مناسب، اگر تاریخ بیان کرتا ہے تو نپی تلی اور اگر طنز و مزاح لکھتا ہے تو اتنا لطیف کہ بندہ ایک سرشاری کی کیفیت لیے اس سے گزرتا ہے۔