Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Bhed Az Asim Butt

Bhed Az Asim Butt

بھید از عاصم بٹ

پچھلے کچھ دنوں میں دو ناول میرے زیر مطالعہ رہے۔ ایک یہ بھید اور دوسرا محمد اقبال دیوان کا "وہ ورق تھا دل کی کتاب کا"۔ دیوان صاحب کا ناول کچھ ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل تھا اور بھید کے صفحات کچھ دو سو تیس کے قریب ہیں۔ ویسے تو دو کتابوں کا موازنہ کرنا ایک الگ ہی صنف ہے، مگر میں ہر دو پر طائرانہ سی نظر ڈال کر گزر جاؤں گا۔ ان دو ناولوں کو ساتھ ساتھ رکھنے کو ضرورت کیوں پیش آئ؟ ذیل میں مندرجات عرض کیے جا رہے ہیں۔

میں نے دیوان صاحب پر اچھی خاصی تنقید کر چھوڑی تھی۔ جس پر مجھے کچھ دوستوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ گو کہ میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ میری تنقید خالص میری اپنی راۓ ہے، جس کا حق میں مقدم رکھتا ہوں، آپ یا تو وہ کتاب پڑھیں پھر میرے ساتھ بحث کریں تو الگ بات ہے۔ خیر وہ بات تو آئی گئی ہوگی اسی اثناء میں یہ ناول میں پڑھنے میں لگ گیا تو سوچا دونوں کا موازنہ لکھ دیتا، جس سے لوگوں کو میرا پوائنٹ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ہر دو ناولوں میں کرداروں کی بھرمار ہے مگر دونوں میں جو ایک بہت بڑا فرق ہے۔ وہ حقیقت سے قریب اور دور ہونا ہے۔ مثلاً بھید میں آپ کو جو کردار نظر آئیں گے وہ آپ کو اپنے ارد گرد دیکھنے میں آسانی سے مل جائیں گے۔ مگر دیوان صاحب نے اپنے کریکٹرز کو "عام آدمی" ہی بتایا ہے، مگر ملتے وہ "خاص خاص"لوگوں کو ہی ہیں۔ بھید میں کرداروں کو بہت خوبصورت سے بُنا گیا ہے کہ ہر کردار آتا ہے اور اپنا رول ادا کرکے چلا جاتا ہے، بور نہیں کرتا۔ دیوان صاحب نے کرداروں کو بے جا طول دے دیا جو کہ اپنی چاشنی کھو بیٹھتے ہیں۔ ایک چیز جو دونوں ناولوں میں یکساں ہے وہ "فلسفہ" ہے۔ گو کہ بٹ صاحب نے تمام ناول میں اس سے احتراز ہی برتا ہے، مگر آخر کے کچھ صفحات میں وہ پٹری سے اتر ہی گۓ (اتنی چھوٹی سی چوک کے لیے ان کو معافی دی جا سکتی ہے)۔ مگر دیوان صاحب کی کتاب کا زیادہ تر حصہ فلسفہ کی نظر ہوگیا ہے۔ فلسفہ بھی وہ جو زبردستی قاری کو گردن سے نیچے اتارنا پڑے

اب مختصر میں اس کتاب کی بات کر لوں یہ کیا کہتی ہے۔ اس کتاب نے اپنے نام کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ مصنف نے کہانی کو ایک بہت منفرد طریقے سے بیان کیا ہے، کہانی کے کردار کافی جاندار ہیں، مگر ہر کسی میں کوئی نہ کوئی بھید چھپا ہوا ہے جو قاری کو خود ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ مصنف نے ہیرو ہیروئین کو بھی ساری کہانی میں چھپاۓ رکھا۔ آخر میں وہ ہر دو کو خود سامنے لے آے مگر میرے خیال میں اگر وہ سامنے نہ بھی لاتے تو کہانی مزید جاندار ہو سکتی تھی۔ سامنے لا کر انہوں نے ہندی فلموں سا کام کیا، ہیپی اینڈنگ۔ اصل میں مصنف نے ہر بندے میں چھپی مختلف شخصیات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے یہ بتلایا ہے کہ ہر ایک بندہ کافی زندگیاں جی سکتا ہے۔ جو کہ اس کہانی کا ہیرو جیتا ہے۔ ہیروئین کے ساتھ زیادتی یہ ہے کہ اس کے رول کو بہت مختصر رکھا گیا ہی (شاید سرپرائز کا عنصر رکھنے کے لیے) حالانکہ جس طرح کی شخصیت ہیروئین کی دکھائی گئی ہے، اسے بہت آگے تک لے جایا جا سکتا تھا۔ خیر کل ملا کر کافی عرصہ بعد ایک ہٹ کر پڑھنے والی کتاب ملی۔

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib