Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Zindagi Nama

Zindagi Nama

زندگی نامہ

کسی کسی گھر میں کوئی ایسا ہوتا ہے، جو باقی سب سے مختلف ہوتا ہے۔ شہزاد بھائی ایسے ہی تھے۔ بلکہ اور بہت سے لوگوں سے بھی جدا تھے۔ میں نے ان کے منہ سے کبھی کسی کی برائی نہیں سنی۔ کوئی بری بات نہیں سنی۔ کوئی برا لفظ نہیں سنا۔

شہزاد بھائی ماموں نواب کے بیٹے تھے۔ میں نے خانیوال میں نانی اماں سے ان کا بہت ذکر سنا۔ نواب حسن ان کے چچازاد بھائی تھے۔ خاندان میں ان جیسا قابل شخص اور کوئی نہیں تھا۔ نوے کی دہائی تک آئی بی اے کو شمالی امریکا سے باہر سب سے اعلی بزنس اسکول قرار دیا جاتا تھا۔ جو شخص ستر کی دہائی میں آئی بی اے کا ڈائریکٹر ہو، وہ کیا شے ہوگا! بیرون ملک سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ پھر زندگی بھر پڑھتے رہے اور پڑھاتے رہے۔

ہمارے چھوٹے ماموں اسکول کی عمر میں خانیوال سے کراچی چلے گئے اور ماموں نواب کے پاس کچھ عرصہ رہے۔ چھوٹے ماموں نے اس مختصر سی رفاقت اور تربیت سے بہت کچھ سیکھا۔ ضیا الحق دور میں انھیں بینک سے نکال دیا گیا تھا اور بینظیر دور میں بحال ہوئے۔ میں نے ان کی بیروزگاری کے دنوں میں دیکھا کہ بینک کے بڑے افسر رپورٹیں ڈرافٹ کروانے ان کے گھر آتے تھے۔

اماں اور امی سے ماموں نواب کا بہت ذکر سنا، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے کراچی آنے سے کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ اماں کو صرف دو بار ہی محرم کے علاوہ روتے دیکھا۔ ایک اس دن جب ماموں نواب کا انتقال ہوا۔ اور ایک تب جب امروہے سے ان کے اکلوتے بھائی کے انتقال کی خبر آئی۔ اماں سنہ سینتالیس میں نانا اور بچوں کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں۔ ان کے بھائی وہیں رہے۔ دونوں کو خوشحالی نصیب نہ ہوئی۔ چالیس سال زندہ رہے، لیکن ایک دوسرے کو دوبارہ نہ دیکھ سکے۔ ہماری امی خانیوال میں پیدا ہوئی تھیں۔ کیسا جبر، کیسی بے بسی تھی کہ انھوں نے اپنے ماموں کو کبھی نہیں دیکھا۔

ہمارے کراچی آنے سے کوئی سال بھر پہلے ماموں نواب کے بیٹے انور بھائی خانیوال آئے۔ میری فوراً ان سے دوستی ہوگئی۔ وہ اس وقت بہت مزے کے آدمی تھے۔ ایک کیمرا اپنے ساتھ لائے تھے، جس سے انھوں نے بہت فوٹو کھینچے۔ ایک دن ہم میاں چنوں گئے، جہاں بابا نیشنل بینک کی برانچ میں کام کرتے تھے۔ پھر ایک دن ہم ملتان گئے۔ وہاں مزاروں پر گھومتے ہوئے میری نظر ایک ذہنی معذور پر پڑی جو لاوارث پڑا تھا۔ رال ٹپکتی ہوئی، میلے کپڑے، گندگی میں سنا ہوا۔ میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ دس گیارہ سال کا بچہ تھا۔ دل کمزور تھا۔ انور بھائی سے کہا، ہم اس کی کیسے مدد کریں۔ انور بھائی نے کہا، مبشر! زندگی میں قدم قدم پر ایسے بہت سے لوگ ملیں گے۔ کس کس کی مدد کرو گے؟ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ منہ پھیرو اور آگے بڑھ جاؤ۔ میں کئی دن اس معذور کے بارے میں سوچتا رہا۔ انور بھائی کی بات شاید ٹھیک تھی لیکن مجھے اچھی نہیں لگی۔

کراچی آنے کے بعد اپنا گھر لینے سے پہلے ہم چھوٹے ماموں کے گھر کچھ دن رہے۔ بہت سے رشتے داروں کو پہلی بار دیکھا۔ ایک دن اماں اور ہم سب ماموں نواب کے گھر ناظم آباد بھی گئے۔

ماموں اور ممانی دونوں کا انتقال ہوچکا تھا۔ انور بھائی بیرون ملک جاچکے تھے۔ تین بہنوں اور شہزاد بھائی سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اتنی محبت سے استقبال کیا اور اتنی اپنائیت جتائی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ وہیں ماموں نواب کی کتابوں کی الماری دیکھی۔ ابن انشا کی کتابوں کے سرورق اور ان پر بنے ہوئے کارٹون دیکھ کر جی چاہا کہ انھیں کھول کر دیکھوں۔ لیکن شیشے کے پٹ تھے اور ان پر تالا لگا تھا۔ اچھا ہی ہوا کیونکہ اس تالے نے ان کتابوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دی اور یوں ابن انشا کی تحریروں سے میرے عشق کا آغاز ہوا۔

اسی گھر میں پہلی بار اس لڑکے سے تعارف ہوا، جو بعد میں زندگی بھر کا دوست بن گیا۔ عدنان نذر کو اب بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ لیکن ہماری بچپن کی یاری ہے۔ ناظم آباد میں ہمارے دو ہی رشتے دار رہتے تھے۔ خالا پیاری یعنی عدنان کی امی کا گھر تھا یا ماموں نواب کا۔

ہمارے لوئر مڈل کلاس خاندان میں اس وقت کوئی بہت زیادہ پڑھے ہوئے لوگ نہیں تھے۔ لڑکیوں کی میٹرک انٹر کے بعد شادی ہو جاتی۔ لڑکے زیادہ سے زیادہ گریجویشن کرکے نوکری پر لگ جاتے۔ ماموں نواب کے بچے اور طرح کے تھے۔ بڑی باجی ڈبل ایم اے تھیں۔ انور بھائی اور چھوٹی بہن نے ایم بی اے کیا۔ منجھلی بہن اور شہزاد بھائی نے ماسٹرز کیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ان دنوں، یعنی اسی کی دہائی کے وسط میں ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھ کر گاڑیوں کے جدید ماڈلز اور ماڈرن فیشن پر گفتگو کرتے تھے۔ دنیا کے بارے میں ان کی معلومات اپ ڈیٹڈ تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ پاکستان میں مس فٹ تھے۔ پہلے انور بھائی کینیڈا پہنچے، پھر ایک ایک کرکے تینوں بہنیں بھی چلی گئیں۔ شہزاد بھائی اکیلے کراچی میں رہے۔ میرا خیال ہے کہ کبھی گھومنے یا بھائی بہنوں سے ملنے بھی کینیڈا نہیں گئے۔

شہزاد بھائی کہاں جاب کرتے تھے، مجھے معلوم نہیں تھا۔ خوشی غمی کی تقریبات میں ضرور ملتے تھے۔ ان کا ایک خاص انداز تھا، "ہاں بھئی!" کہہ کر مخاطب کرتے۔ رسمی گفتگو، خیریت دریافت کرتے۔ پھر کوئی ادھر ادھر کی بات، کوئی مزے دار واقعہ، کوئی شگفتہ جملہ بول دیتے۔ وہ ماضی کے ناظم آباد کا عکس اور میرے لیے کراچی کے اچھے دنوں کا حوالہ تھے۔

میں نے ایکسپریس کے ابتدائی برسوں میں وہاں کام کیا تھا۔ جیو میں آنے کے کافی عرصے بعد ایک دن شہزاد بھائی ملے تو ایکسپریس کے ایڈیٹر نجمی صاحب کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا، ارے، وہ آپ کو کہاں ملے؟ تب انھوں نے یہ بتاکر حیران کردیا کہ وہ ایکسپریس میں کام کررہے ہیں۔ بھئی واہ، میرے علاوہ بھی خاندان میں کوئی صحافی ہے۔

امریکا آنے سے کچھ عرصہ پہلے میں نے شہزاد بھائی کو فون کیا اور کہا کہ انور بھائی جب خانیوال آئے تھے تو بہت سی تصویریں کھینچی تھیں۔ وہ میں نے کبھی نہیں دیکھیں۔ کیا کہیں محفوظ ہیں؟ انھوں نے کہا، میں دیکھتا ہوں۔ چند دن بعد مجھے فون کرکے کہا، میں شجاع کے گھر آیا ہوا ہوں۔ ادھر آسکتے ہو؟ میں وہاں گیا تو انھوں نے تمام تصویریں میرے حوالے کردیں۔ سارا بچپن ایک دم آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں ان کا کتنا شکرگزار ہوا، بتا نہیں سکتا۔

شجاع بھائی سے شہزاد بھائی کی بچپن کی دوستی تھی۔ دونوں پہلے ناظم آباد میں رہتے تھے۔ پھر گھر بدل لیے لیکن دوستی بڑھتی رہی۔ کچھ ایسا تھا کہ صبح میں شہزاد بھائی ان کے دفتر میں بیٹھے ہیں اور شام کو شجاع بھائی ان کے دفتر میں۔ شادیوں کے بعد بھی جوڑی دار بنے رہے۔ شجاع بھائی دراصل ان کے ہم مزاج تھے۔ بالکل ویسا ہی لہجہ اور سیدھی سادی شگفتہ گفتگو۔ میں نے کوئی اور دو دوست ایسے نہیں دیکھے جنھوں نے بے تکلفی اور رازداری والی گفتگو میں بھی کبھی کوئی برا لفظ منہ سے نہیں نکالا۔

ابھی تین دن پہلے ایک فیملی واٹس ایپ گروپ میں یہ ہلا دینے والی خبر ملی کہ شہزاد بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں بوکھلا گیا۔ عدنان نذر کو فون کیا۔ اس نے تصدیق کی۔ یہ بھی بتایا کہ میرے امریکا آنے کے بعد ان کا بائی پاس ہوا تھا، لیکن اس بات کو کئی سال ہوئے۔ اسی نے بتایا کہ شہزاد بھائی کے چاروں بھائی بہنیں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ گویا کوئی ایسی طبیعت خراب ہوئی کہ ٹرمنل اسٹیج تھا اور بھائی بہنوں کو علم ہوگیا تھا۔

بندہ جب میری عمر کو پہنچتا ہے، یعنی پچاس کی دہائی میں، اور خود زندہ رہے تو بہت سے جاننے والوں کی موت کی خبریں سننا پڑتی ہیں۔ ماں باپ نہیں رہتے۔ پچھلی نسل رخصت ہوچکی ہوتی ہے۔ سینئر کزنز اور کولیگ، بلکہ اپنے ساتھ والے بھی الوداع کہہ رہے ہوتے ہیں۔ دل مضبوط کرکے جینا پڑتا ہے۔

دل مضبوط ہونے کے باوجود اس سال دو افراد کی موت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ایک وائس آف امریکا کے سابق ساتھی انجم ہیرلڈ گل کے جانے نے اور ایک شہزاد بھائی کے بچھڑنے نے۔ یہ دونوں بہت زیادہ زندہ لوگ تھے۔ ان کی موت کا یقین نہیں آتا۔

شہزاد بھائی کی بیوی سے میں کبھی نہیں مل سکا۔ انور بھائی اور بہنوں سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔ آخر شجاع بھائی یاد آئے۔ حالانکہ ان سے پہلے کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔ لیکن عدنان سے نمبر لے کر انھیں فون کیا۔ تعزیت کی اور غم بانٹا۔ انجان افراد کا غم مشترک ہو تو وہ انجان نہیں رہتے۔ آج معلوم ہوا کہ کربلا جاکر اجنبیت کیوں نہیں ہوتی۔ لاکھوں افراد میں کوئی انجان کیوں نہیں لگتا۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat