Netflix Ki Series The Railway Man
نیٹ فلکس کی سیریز دا ریلوے مین
کیا آپ نے نیٹ فلکس کی سیریز دا ریلوے مین دیکھی؟
اتفاق سے میں نے اس کی چاروں قسطیں ہفتہ 2 دسمبر کو دیکھیں اور بدقسمتی سے 1984 میں یہی وہ تاریخ تھی، جب بھوپال میں زہریلی گیس کا سانحہ پیش آیا۔ کیمیکل فیکٹری یونین کاربائیڈ میں گیس خارج ہونے سے شہر میں 15 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور پانچ لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
اگر آپ نے ابھی تک یہ سیریز نہیں دیکھا تو آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ کہانی اسپائل تو نہیں ہوگی، لیکن میں جن کرداروں کی تفصیل بیان کروں گا، ان میں شاید آپ کو دلچسپی نہ ہو۔
لیکن میں اصرار کروں گا کہ یہ سیریز ضرور دیکھیں۔ خاص طور پر کراچی والے دیکھیں اور اپنے شہر کی فکر کریں، جہاں جوہری پلانٹس موجود ہیں اور پرویز ہود بھائی اور غیر ملکی میڈیا ان پر خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔
نیٹ فلکس سیریز کا مرکزی کردار بھوپال ریلوے کا ڈپٹی اسٹیشن منیجر افتخار صدیقی ہے۔ یہ کردار کے کے مینن نے نہایت خوبی سے ادا کیا ہے۔ حقیقی زندگی میں ڈپٹی اسٹیشن منیجر غلام دستگیر تھے۔ جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر ہزاروں افراد کو بچایا تھا۔
سیریز میں سچا واقعہ ذرا مختلف ڈھنگ سے فلمایا گیا ہے کہ غلام دستگیر زہریلی گیس سے بے دم ہوگئے اور انھیں شمشان گھاٹ پہنچادیا گیا۔ حقیقت میں انھیں لاشوں کے ساتھ مردہ خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ کئی گھنٹوں بعد وہ ہوش میں آئے۔ بہرحال زہریلی گیس نے نقصان پہنچایا اور انھیں گلے کا کینسر لاحق ہوگیا۔ ان کا انتقال 2003 میں ہوا تھا۔
غلام دستگیر کے بیٹوں نے سیریز کے پروڈیوسر یش راج فلمز پر مقدمہ کیا ہے کہ سیریز میں ان کے والد کا اصل نام نہیں بتایا گیا۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی بایوپک کے لیے کسی اور پروڈیوسر سے معاہدہ کررکھا ہے۔
اس سیریز بلکہ اس حقیقی واقعے کا اہم ترین کردار وہ صحافی ہے۔ جس نے حادثے سے کئی سال پہلے اس بارے میں خبردار کردیا تھا۔ سیریز میں صحافی کا نام جگموہن ہے اور یہ کردار سنی ہندوجا نے ادا کیا ہے۔ اصلی صحافی کا نام راجکمار کیسوانی تھا۔ ان کا ایک دوست 1981 میں اس فیکٹری میں زہریلی گیس کے اخراج سے مرگیا تھا۔ اس پر انھوں نے اپنے طور پر تحقیقات کی اور 1982 سے 1984 تک کئی خبریں چھاپیں۔ انھوں نے ہفت روزہ رپٹ کے مختلف شماروں میں یہ سرخیاں لگائیں:
بچائیے حضور اس شہر کو بچائیے
نہ سمجھو گے تو آخر مٹ ہی جاو گے
جوالا مکھی کے مونھ بیٹھا بھوپال
انھوں نے لکھا کہ یہ فیکٹری جوالا مکھی یعنی آتش فشاں ہے۔ جو کسی بھی وقٹ پھٹ سکتا ہے۔ ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ کیسوانی کو بعد میں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ یہ اعزازات ان کی ناکام رپورٹنگ کو مل رہے ہیں۔ کیونکہ کسی نے ان کی خبروں پر توجہ نہیں دی اور سانحہ ہوکر رہا۔ کیسوانی کا انتقال 2021 میں کوویڈ کی وجہ سے ہوا۔
کیسوانی کا جو دوست 1981 میں فیکٹری کے حادثے میں مرگیا تھا، سیریز میں اس کی بیوی کا نام شازیہ ہے اور یہ کردار اناپورنا سونی نے نبھایا ہے۔ اصل زندگی میں ان خاتون کا نام ساجدہ بانو ہے۔ شوہر کے انتقال کے تین سال بعد وہ ٹرین سے اسی دن بھوپال واپس آئیں۔ اس دن ان کا ایک بچہ گیس سے ہلاک اور دوسرا معذور ہوگیا۔
سیریز میں قمرالدین نام کا ایک جاندار کردار دب ئیندو بھٹاچاریا نے ادا کیا ہے۔ حقیقی زندگی میں اس فیکٹری ملازم کا نام بشیراللہ تھا۔ جس نے حادثے کو روکنے کی کوشش کی اور سب سے پہلے ہلاک ہوا۔
سیریز میں آر مادھون نے منیجر ناردرن ریلوے رتی پانڈے کا کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت میں جی ایم کا نام گوری شنکر ہے۔ جو اس دن اپنے سینئرز کی نافرمانی کرکے بھوپال والوں کو بچانے نکل پڑے تھے۔
سیریز میں وزیر ریلوے کا منفی کردار بار بار اجاگر کیا گیا ہے۔ اس وقت راجیو گاندھی کی کابینہ میں وزیر ریلوے غنی خان چوہدری تھے۔ وہ بنگال کے سینئر سیاست دان تھے اور ان کے دامن پر ایسا کوئی اسکینڈل نہیں کہ انھوں نے بھوپال کے عوام کی مدد سے کسی کو روکنے کی کوشش کی ہو۔ بھوپال مسلمانوں کا شہر ہے اور وزیر صاحب بھی مسلمان تھے۔ یہ ضرور ہے کہ دلی کی بیوروکریسی نے کچھ رکاوٹیں کھڑی کیں۔ حقائق کے برعکس سیریز میں ایک خاتون بیوروکریٹ کو عوام کا ہمدرد دکھایا گیا ہے جو جنرل منیجر ریلوے رتی پانڈے کی محبوبہ بھی ہے۔ یہ کردار فکشن کا کارنامہ ہے۔ اسے جوہی چاولہ نے ادا کیا ہے۔
اسی طرح دیویئندو شرما ایکسپریس بینڈٹ کے روپ میں نظر آئے ہیں۔ یہ کردار بھی سیریز میں مسالا ڈالنے کے لیے گھڑا گیا اور کوئی شک نہیں کہ اس کی وجہ سے کہانی میں نکھار آیا۔