Ammi Ji
امی جی
بابا کبھی امی کے پلنگ پر بیٹھنے کی کوشش کرتے تو وہ ایک دم بدک کر کہتیں، یہاں مت بیٹھنا۔ چادر ابھی پاک کی ہے۔ میرے نماز کے کپڑے ہیں۔
یہ سب بہانے تھے۔ امی دراصل وہمی تھیں۔ انھیں شک رہتا تھا کہ بابا باہر سے ہوکر آئے ہیں تو ان کے کپڑے نجس ہوں گے۔ گھر آکر پتا نہیں نہائے یا نہیں۔ ہاتھ دھوئے یا نہیں۔ یہ پابندی صرف بابا تک محدود نہیں تھی۔ ہم بچے بھی اس کی زد میں آتے تھے۔ باہر سے آکر یا غسل خانے سے نکل کر انھیں دکھا دکھا کر ہاتھ پاک کرنے پڑتے تھے۔
امی شروع دن سے ایسی نہیں تھیں۔ عمر کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے اور بڑھتے گئے۔ وہ اینگزائٹی اور ڈپریشن کی مریض تھیں۔ ہمارے ہاں بے سوچے بے جانے علاج کروایا جاتا ہے۔ بیماری کیا ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے، ڈاکٹر کو کیا بتانا چاہیے، اس سے کیا پوچھنا چاہیے، بیشتر لوگ نہیں جانتے۔ جاننا بھی نہیں چاہتے۔
میں ساڑھے تین سال کا تھا جب امی بابا نے دادی کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 1976 کی بات ہے، یعنی 47 سال پرانا واقعہ۔ مجھے اس گھر میں رہتے ہوئے کی دو باتیں یاد ہیں۔ ایک وہ دن، جب میری پہلی بہن پیدا ہوئی۔ مجھے خود بھی یقین نہیں آتا کہ تین سال کی عمر کی بات کیسے یاد ہے۔
دوسرا منظر جو نہیں بھولتا، وہ امی کی گھبراہٹ کا ہے۔ چاچا ڈاکٹر جمیلہ کو بلا کے لائے اور انھوں نے کورامین سیرپ یا اس کے قطرے پانی میں ڈال کر امی کو پلائے۔ مجھے دوا کا نام تک نہیں بھولا۔
جمیلہ آنٹی ڈاکٹر نہیں تھیں، غالبا مڈوائف تھیں۔ وہ بلاک گیارہ کے امام بارگاہ سے ایک گلی چھوڑ کے رہتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائی انھیں کے ہاتھ کے ہیں۔ ایک دن بابا مجھے لے کر گپی کے چوک میں اپنے دوستوں کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک لڑکا وہاں سے سلام کرکے گزرا۔ وہ جمیلہ آنٹی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بابا کے ایک دوست نے کہا، زیدی صاحب، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لڑکے نے چند دن پہلے خودکشی کی کوشش کی ہے؟
مجھے آگے کی بات یاد نہیں۔ جمیلہ آنٹی کے شوہر نے دو شادیاں کی تھیں۔ گھر میں مسائل ہوں گے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ نوجوان ایک سے زیادہ بار خودکشی کی کوشش کرچکا تھا۔
میں 1993 میں خانیوال گیا تو جمیلہ آنٹی سے بھی ملنے گیا۔ وہ بوڑھی ہوچکی تھیں۔ مجھے پہچان گئیں اور اندر آنے کو کہا۔ میرے ساتھ کراچی کا دوست شباہت تھا۔ میں نے بہانہ بنادیا کہ ابھی جلدی میں ہوں، پھر آوں گا۔ اس چند منٹ کی کھڑے کھڑے ملاقات میں انھوں نے امی کو یاد کیا اور یہ بتاتے ہوئے رو پڑیں کہ ان کے بیٹے نے خودکشی کرلی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ امی کو اینگزائٹی کیسے لاحق ہوئی۔ نانی، خالہ اور مامووں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں دیکھا۔ امی اس کا ذمے دار بابا کو ٹھہراتی تھیں۔ دونوں کی عمروں میں خاصا فرق تھا۔ امی حساس تھیں، بابا لاپرواہ تھے۔ ان کے بہت سے دوست تھے۔ وہ شادی کے بعد بھی ویک اینڈ دوستوں میں گزارتے۔ نیشنل بینک میں کیشئیر تھے۔ ملتان یا میلسی تبادلہ ہوا تو کمرا لے کر چھ دن وہاں رہتے اور چھٹی کے دن گھر آتے۔ گھر کی دیکھ بھال، ہمارا اسکول، بازار کے کام، سب مسائل برقعہ پوش امی جھیلتیں۔
خانیوال میں امی گھر میں کورامین رکھتی تھیں لیکن کراچی شفٹ ہونے کے بعد وہ دوا نہیں ملی۔ انچولی آکر ہم دو ماہ چھوٹے ماموں کے گھر رہے۔ میں کبھی پشاور تو نہیں گیا لیکن ماموں کا گھر قصہ خوانی بازار کا چوک لگتا تھا۔ ایک رشتے دار ملنے آرہا ہے، دوسرا جارہا ہے۔ ماموں ان دنوں بیروزگار تھے۔ لیکن باورچی خانے میں چائے کی کیتلی ہر وقت چولھے پر چڑھی رہتی۔ ممانی کا پاندان بھی ہر وقت کھلا رہتا۔ جو آتا، چائے پیتا، غیبتیں کرتا اور گلوری منہ میں رکھ کے رخصت ہوجاتا۔
اس گہماگہمی میں امی کی اینگزائٹی چھٹیوں پر چلی گئی۔ اسکولوں میں بھی گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ بابا کا کراچی تبادلہ نہیں ہوا تھا۔ چھٹیاں ختم ہوئیں تو امی نے کرائے پر مکان لیا اور ہمیں اسکول میں داخل کروادیا۔ اس کے بعد ان کی اینگزائٹی لوٹ آئی۔ مغرب ہوتے ہی ان کا دل گھبرانے لگتا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ دن اپنے گھر میں گزاریں گے اور رات چُھٹبھائی کے ہاں۔ ان کے چُھٹبھائی یعنی ہمارے چھوٹے ماموں۔
اس کے بعد برسوں یہ معمول رہا، بابا کے ٹرانسفر کے بعد بھی، کہ مغرب سے پہلے پہلے ہم انچولی کا میدان پار کرکے ماموں کے گھر چلے جاتے۔ امی چھوٹی بہن کو گود میں اٹھالیتیں۔ میں وہ دیگچی سنبھالتا جس میں امی نے کھانا بنایا ہوتا۔
ایسا کئی بار ہوا کہ جاتے جاتے مغرب کا وقت ہوگیا۔ اندھیرا پھیلنے لگا۔ میدان میں تیزی سے گزرتے ہوئے امی کا سانس پھول جاتا۔ وہ ایک دم گھبرا جاتیں۔ ان کا رنگ پیلا پڑجاتا۔ میں ان کے منہ پر زور زور سے پھونکیں مارتا۔ بڑی مشکل سے ان کا سانس بحال ہوتا۔
خانیوال میں بابا کی شامیں گپی کے چوک یا راو اقبال کی چوپال میں گزرتی تھیں اور کراچی میں خالو اظہار کے تھڑے پر۔ مجھے ایسے مواقع کم یاد ہیں کہ امی اور بابا کسی تقریب میں، کسی مجلس میں، کسی رشتے دار کے ہاں ایک ساتھ گئے ہوں۔
بڑے ماموں کسی دن آئے تو امی نے ان سے اپنے سانس پھولنے کا ذکر کیا۔ وہ بفرزون میں رہتے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر سلیم سے دوا لینے کو کہا، جن کا وہاں کلینک تھا۔ میرے ایک کزن ان کے کمپاونڈر تھے۔ وہ واقعی اچھے ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے دس بارہ مختلف رنگوں کی گولیاں دیں اور کہا، انھیں جب تک جی چاہے کھاتی رہیں۔ میں ہر ہفتے بفرزون جاتا اور دوا رپیٹ کروالاتا۔ ان میں کوئی ایک آدھ گولی مسکن ہوگی، باقی وٹامنز تھیں۔
امی کب وہمی ہوئیں، ٹھیک سے یاد نہیں۔ انھیں وہمی سمجھنا بھی مناسب نہیں لگتا تھا، کیونکہ امروہے میں ایسے ایسے وہمی دیکھے ہیں اور ایسوں ایسوں کے قصے سنے ہیں کہ امی بھی ہنس پڑتی تھیں۔ ایک دور کے رشتے دار تھے جو تنخواہ ملنے کے بعد گھر آکر کرنسی نوٹ دھوتے تھے۔ ایک رشتے دار تھے جو اپنے بچوں کو پلنگ سے نہیں اترنے دیتے تھے۔ انچولی میں ہماری ایک ہمسائی آنٹی کچن میں نہاتی تھیں۔
امی کے مسائل ان سے مختلف تھے۔ مثلا گھر میں اخبار نہیں آنا چاہیے کیونکہ اخبار والا اسے ڈیوڑھی میں پھینک جاتا ہے جو ناپاک ہے۔ میں اس بات پر بہت الجھتا تھا۔ امی، وہ جگہ کیوں ناپاک ہے؟ کیونکہ وہاں بلیاں آتی ہیں، پیشاب کرتی ہوں گی۔ امی، نہیں کرتیں۔ نہ، کرتی ہیں۔
امی سبزی والا گلی سے گزر رہا ہے، سبزی لے لوں۔ نہ، اس سے نہ لینا۔ یہ گندی گلی سے گزرتا ہے۔ سبزی پر گندی چھینٹیں آجاتی ہیں۔ امی، نہیں آتیں۔ نہ، آتی ہیں۔
امی، سردی ہورہی ہے، کمبل اوڑھ لیں۔ نہ میں نہ اوڑھ رہی۔ امی اوڑھ لیں، کمبل لانڈری سے دھلوا کے لایا ہوں۔ ائے ہئے جانے کیسے کیسے لوگوں نے ہاتھ لگایا ہوگا۔ میں نہ اوڑھ رہی۔
امی مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ مجھے چھینک بھی آجاتی تو دس ڈاکٹروں کو دکھاتیں۔ ان کی طبیعت خراب ہوتی تو میں بھی اچھے سے اچھے اسپیشلسٹ کو دکھاتا۔ لیکن آرام انھیں ڈاکٹر سلیم کی دوا ہی سے آتا تھا۔ لیکن بہرحال، وہ دوا بھی وہم کا علاج نہیں کرپاتی تھی۔ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اتفاق سے یہ بات مجھے بچپن میں امی ہی نے بتائی تھی۔
چھوٹی ممانی کے انتقال کے بعد ان کے گھر جانا چھوٹ گیا۔ ساری رونق ان کے دم سے تھی۔ ان کے بغیر بھرا ہوا گھر بھی خالی لگتا تھا۔ اچھے بھلے لوگ وہاں جاکر اداس ہوجاتے تھے تو امی کا کیسے دل لگتا۔
دوائیں کھانے کے باوجود امی کی مغرب کے بعد گھبراہٹ کی بیماری برقرار رہی۔ ان کی زندگی کے آخری بیس سال کرائے کے ایک ہی گھر میں گزرے جو انچولی کے مشہور عباس صاحب والی گلی میں تھا۔ وہ گھر امی کی سہیلی منسوبہ باجی کا ہے۔ ان بیس برسوں میں امی نے خاندان کی کسی شادی، کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ بہنوں کی شادیاں اور میرا ولیمہ ہال کے بجائے گھر پر ہوا۔ میری شادی میں امی کی شرکت اس لیے ممکن ہوئی کہ وہ مغرب سے پہلے رکھی گئی۔
امی بابا میں ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی لیکن میں ان کی ازدواجی زندگی کو ناکام نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے ہم بچوں کو پڑھایا لکھایا، شادیاں کیں اور زندگی کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔ بابا برے آدمی نہیں تھے۔ لیکن امی ڈپریشن اور وہم میں مبتلا تھیں۔ ایسے شخص کو ایک ولن چاہیے۔ بابا نے وہ کردار بحسن و خوبی نبھایا۔
بہنیں بتاتی ہیں کہ امی کو کسی بات پر بابا پر غصہ آتا تو امروہے کی خواتین کا ایک محاورہ بار بار کہتیں، انھوں نے میرا کلیجہ چھلنی کردیا ہے۔ ان کے جگر میں کینسر کی تشخیص اس وقت ہوئی جب وہ خاصا بڑھ چکا تھا۔ آخر میں واقعی ان کا کلیجہ چھلنی نکلا۔
امی کے انتقال کے بعد بابا آٹھ سال زندہ رہے۔ وہ ہر کچھ دن بعد وادی حسین جاتے۔ ہر ہفتے دو ہفتے بعد امام بارگاہ میں امی کے ایصال ثواب کی مجلس کرواتے۔ ہر نماز کے بعد ان کے لیے دعا کرتے۔ محبت تھی یار۔ بس اظہار نہیں کرسکے۔
بابا کا انتقال ہوا تو ہم انھیں بھی وادی حسین لے کر گئے۔ دونوں قبروں میں کافی فاصلہ تھا، لیکن اتنا نہیں، جتنا زندگی میں رہا۔
اس رات میں نے خواب میں دیکھا کہ امی جنت کے ایک باغ میں سنہری پلنگ پر بیٹھی ہیں۔ چاندی کا پاندان آگے دھرا ہے۔ مغرب کا وقت ہے۔ میٹھی میٹھی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں شہزادوں جیسا لباس پہنے بابا نمودار ہوئے اور امی کی طرف بڑھے۔
تبھی امی نے ایک دم بدک کر کہا، یہاں مت بیٹھنا۔ چادر ابھی پاک کی ہے۔ میرے نماز کے کپڑے ہیں۔