Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Kahan Ki Azadi, Kahan Ka Inqilab?

Kahan Ki Azadi, Kahan Ka Inqilab?

کہاں کی آزادی، کہاں کا انقلاب؟

ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ منظم تحریکوں میں شامل لوگ اور ان کے رہنما طویل جدوجہد کرکے، جبر و ستم سہتے ہوئے بادشاہتوں یا نوآبادکاروں سے آزادی حاصل کیا کرتے تھے۔ نوآبادکاروں سے نجات پانے کو آزادی کہا جاتا تھا کیونکہ غیر ملکی اقلیت کے تسلط سے نجات ملا کرتی تھی، اگرچہ بارہا نوآبادکار مقامی افسرشاہی اور فوجی جنتا کی شکل میں ایک اور اقلیت حکمرانی کی خاطر چھوڑ جایا کرتے تھے۔

بادشاہتوں سے نجات پانے کو انقلاب کہا جاتا تھا، اس میں بھی بعض اوقات انقلابی رہنماؤں کو کم ال سنگ کی طرح دیوتا اور اس کی آئندہ نسلوں کو بھگوان بنا دیا جاتا تھا۔ بہرحال آزادی کے حصول یا انقلاب برپا کرنے کی خاطر ایک منظم اور شروع یا درمیان میں بالعموم زیر زمین پارٹی درکار ہوا کرتی تھی۔ زیر زمین ہونے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ نوآبادکار یا بادشاہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کے مطلق العنان اقتدار کو للکارے چنانچہ وہ للکارنے والوں کو اپنا، اپنی سرکار اور تاحتٰی اپنی رعایا کا دشمن سمجھا کرتے تھے اور دشمنوں کے ساتھ جیسا سلوک کیا جاتا ہے، وہ سمجھانے کی ضرورت ہے ہی نہیں۔

بادشاہتوں کے بعد استحصالی نظام سے نجات پانے کی جدو جہد کو انقلابی جدوجہد کہا جاتا تھا۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں"انقلابی" اتنی کم تعداد میں اور عوام سے اس قدر کٹے ہوتے تھے کہ ان کے خلاف برتی جانے والی تعذیب پر یا تو ردعمل ہونے کی توقع ہی نہیں رکھی جاتی تھی یا جو تھوڑا بہت ردعمل ہوتا بھی تو اسے سختی سے دبا دیے جانے کا چلن تھا۔ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں لاہور کے شاہی قلعے میں لکھنئو کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے چشم وچراغ حسن ناصر اور ضیاء کے زمانے میں کراچی کے ایک عقوبت کدے میں نذیر عباسی کی اموات اس کی دو روشن مثالیں ہیں۔ اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اگر کوئی سرگرمی اپنی اصل میں انقلابی ہو تو اس کی راہ بہت کٹھن ہوتی ہے۔ جبر سہنا پڑتا ہے، صبر کرنا پڑتا ہے۔

گذشتہ دوڈھائی عشرے پہلے سے کچھ اور طرح کے "انقلابات" کا رواج ہوا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایسے انقلاب لائے جانے کو رواج دیا گیا ہے تو یہ زیادہ درست ہوگا۔ ان میں چیکو سلاویکیہ کا (17 نومبر 1989 تا 29 دسمبر 1989) کا انقلاب مخملیں، جارجیا کا (3نومبر 2003 تا 23 نومبر 2003) انقلاب گلاب، کرغیزستان کا (27 فروری 2005 تا 11اپریل 2005) انقلان لالہ، زیادہ مشہور ہوئے تھے۔

پھر "بہار عرب" کے نام سے ایک عمل شروع ہوا، جس میں تیونس، مصر، یمن اور لیبیا میں عوامی احتجاجات اور متشدد مظاہروں کے ذریعے حکومتوں کا تختہ الٹا گیا تھا۔ تیونس کے حالات تو کچھ عرصے بعد کسی حد تک ٹھیک ہو گئے۔ مصر میں بنیاد پرست اسلامی تحریک "اخوان المسلمون" کے تحت سرگرم "آزادی اور انصاف کی پارٹی" (یاد رہے اس کا 14 اگست 2014 کے لاہور تا اسلام آباد "آزادی مارچ" اور "تحریک انصاف" سے کوئی تعلق نہیں تھا) کو مکمل طور پر توڑ دینے کے عدالتی احکامات جاری ہوئے۔ اخوان المسلمون کی ہم خیال ایک پارٹی "جماعت اسلامی" کے نام سے پاکستان میں بھی "اسلامی انقلاب" لانے کی پارلیمانی و آئینی سرگرمیاں کرتی ہے، ویسے انقلاب چاہے اسلامی ہو، سوشلسٹ ہو یا کوئی اور اسے پارلیمان اور آئین کا کوئی پاس نہیں ہوا کرتا۔

مصر کے انقلاب "التحریر چوک" کا نام البتہ "تحریک انصاف" کے رہنما عمران خان بھی یہ کہہ کر لے چکے کہ "اسلام آباد میں تحریر چوک سے بھی بڑا میدان سجے گا"۔ لوگوں کو شاید معلوم نہیں یا بھول گئے ہیں کہ "آزادی اور انصاف کی پارٹی" کے رہنما اور مصر کے سابقہ صدر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کا السیسی کی رہنمائی میں فوج نے ایک برعکس انقلاب برپا کرنے کے بعد کیا حال کیا۔ وہ بھی 2011 کے انقلاب سے پہلے والے صدر حسنی مبارک کی طرح قید میں ہیں۔ حسنی پر تو مظاہرین کو قتل کر دینے کا حکم جاری کرنے کا مقدمہ تھا جب کہ مرسی کے خلاف تو بغاوت، قتل پر اکسانے اور غداری کرنے جیسے سنگین ترین مقدمات بنے اور سزا ہوئی۔

مصر کے بعد ایک اور اسی طرح کا نام نہاد "انقلاب" یوکرین کے شہر کیف کے مرکزی چوک "مائدان یا میدان" میں سٹیج کیا گیا تھا۔ لوگ مرے تھے۔ مذاکرات ہوئے تھے اور پھر یک لخت صدر یانوکوچ کو فرار ہونا پڑا تھا۔ قوم پرست کیف حکومت نے ملک کے جنوب مشرق میں"حکومت کا تختہ الٹے جانے" کے اس عمل کے مخالفوں کےخلاف جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ یوکرین کے حالات کے باعث روس اور مغرب کے درمیان بھی ٹھن چکی ہے۔

تو یہ تازہ "آزدی" پہلے سے موجود حکمران اور اس کے ساتھیوں سے نجات پانے کو کہا جاتا ہے تاکہ پھر عرب کے اونٹ کی طرح خود حکمرانی کے خیمے میں گھس کر من مانی کی جائے۔ رہا انقلاب تو یہ لفظ منقلب سے مشتق ہے یعنی یکسر تبدیلی، نظام سے لے کر فوج کی ہئیت تک تبدیل کر دینے کا عمل۔ اس حساب سے تو بس وہی انقلابات ہی انقلاب تھے جو روس، چین، کیوبا، کوریا، البانیہ اور مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں میں گذشتہ صدی کے پہلے نصف میں یا اس کے آس پاس آئے تھے۔ آج کل جن انقلابات کو انقلاب کہا جا رہا ہے وہ انقلاب ہیں ہی نہیں بلکہ انقلاب اقتدار چھیننے کو نام دیا گیا ہے۔ اقتدار چھیننے کے لیے عوام کے "جنون" کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ پھر عوام کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ایسے انقلاب سے متاثر ہونے والے ملکوں میں ہو رہا ہے۔

مصر میں تو پھر بھی میدان التحریر میں خیمے تھے لیکن اسلام آبادمیں تو لوگ سڑکوں پر اور فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے تھے۔ عمران خان یا تو اپنے ایرکنڈیشنڈ کنٹینر میں سو تے یا پھر بنی گالہ میں استراحت کرنے جا تے۔ طاہرالقادری تو گاندھی کے کموڈ کی طرح اپنا آرام دہ کنٹینر اپنے ساتھ باندھے پھرتے تھے۔ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں کہ کنٹینر دس لاکھ روپے میں تیار ہوا ہے یا سوا کروڑ روپے میں لیکن عوام اور رہنما کے درمیان امتیاز تو ہوگیا ناں۔

باقی بڑے رہنما بھی یا تو ساتھ کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں راتیں گذارتے یا اسلام آباد میں اپنے یا اپنے دوستوں کے پرتعیش بنگلوں میں اور یہ دیوانے نوجوان عوام بارش، بے آرامی اور دیگر تکالیف کو اس لیے برداشت کرتے کہ ان کا رہنما اور اس کے ساتھی برسر اقتدار آ جائیں۔ نظام وہی سرمایہ داری رہے جس کے تحت بگوٹا اور اریٹیریا جیسے غریب ملکوں کے مقتدرین بھی عیش و آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں کے لیے امیدیں اور خواب ختم نہیں ہونے دیتے۔ آج ماؤزے تنگ، لینن، ہو چی منہہ، چے گویرا اور فیدل کاسترو نہیں ہیں جو انقلابیوں کے ساتھ انقلابی بن کر وقت بتائیں اور مصائب سہیں۔ تو دوستو! کہاں کی آزادی اور کہاں کا انقلاب؟

Check Also

Dard Hoga Tu Delivery Hogi

By Muhammad Saqib