Roshani Ki Raftar
روشنی کی رفتار

کائنات میں رفتار کی ایک آخری لکیر ہے، یہ وہی رفتار ہے جس سے روشنی خلا میں سفر کرتی ہے، تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ۔ یعنی ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد سات چکر۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اسے فطرت کی حدِ رفتار قرار دیا، کیونکہ جس لمحے کوئی جسم اس حد کو چھونے لگے، اس کی توانائی لامحدود ہونے لگتی ہے۔ کوئی مادی شے، جس کا وزن یا کمیت ہو، روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچ سکتی، کیونکہ اس کے لیے لامحدود توانائی درکار ہوگی اور لامحدود توانائی کائنات میں موجود ہی نہیں۔
اب حالیہ کچھ دنوں سے انٹرنیٹ پر گردش کرتی ایک خبر نے پھر اسی سوال کو زندہ کر دیا: "سائنسدانوں نے روشنی کی رفتار کو توڑ دیا، مگر آئن سٹائن کے قوانین کو نہیں توڑا!" خبر کے مطابق University of Rochester کے محققین نے ایک "spacetime bubble" تیار کیا جس کے اندر روشنی کی مؤثر رفتار (effective speed) بدل گئی اور باہر سے دیکھنے والے کو ایسا لگا جیسے روشنی نے خلا کی حد پھلانگ لی ہو۔ بظاہر یہ جملہ سائنس فکشن کا نیا باب لگتا ہے، مگر اصل حقیقت اتنی سیدھی نہیں۔
سائنس کے مطابق ابھی تک کسی تجربے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ معلومات روشنی سے زیادہ رفتار پر منتقل کی جا سکتی ہیں۔ کچھ تحقیقات میں "میٹامیٹریلز" یا "پلازما" کے اندر روشنی کے پلس کو اس طرح موڑا گیا کہ اس کی ظاہری رفتار بڑھتی نظر آئے، مگر درحقیقت روشنی کی انفرادی شعاعیں (photons) اپنی حد کے اندر ہی رہیں۔ یہ محض optical illusion ہے جو میڈیم کی ساخت اور وقت کی تبدیلی سے پیدا ہوتا ہے۔
یعنی سچ یہ ہے کہ کسی نے روشنی کی رفتار نہیں توڑی بلکہ اس تجربے کے مطابق بس روشنی کے اردگرد کا "spacetime" تھوڑا سا نچوڑ دیا گیا، تھوڑا سا پھیلا دیا گیا، جیسے کائنات خود بگ بینگ کے وقت پھیلی تھی۔ آئن سٹائن کے اصولوں میں بھی یہ جگہ موجود ہے کہ space خود پھیل سکتا ہے اور وہ کسی بھی رفتار سے پھیل سکتا ہے، کیونکہ حرکت چیز کی نہیں بلکہ "خلا" کی ہوتی ہے۔ یہی تصور بعد میں "وارپ ڈرائیو" کے خواب کی بنیاد بنا مگر خواب ابھی خواب ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ "سائنسدانوں نے روشنی کی حد پار کر لی" حقیقت نہیں، بلکہ ایک سائنسی تعبیر کا غلط مفہوم ہے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی آف راچیسٹر کی ویب سائٹ پر ایسے کسی بھی تجربے کا کوئی لنک موجود نہیں ہے نہ ہی کسی اور معتبر ویب سائٹ یا بلاگ پر اس تجربے کا ذکر ہے۔ مطلب یہ دعویٰ ہی جھوٹ ہے۔

