Masnoi Zahanat Aur Insan Ka Imtihan
مصنوعی ذہانت اور انسان کا امتحان

مصنوعی ذہانت، یعنی وہ نظام جو خود سیکھتا ہے، خود سجھتا ہے اور اکثر اوقات ایسا فیصلہ کرتا ہے جس پر انسان صرف حیرت سے سر ہلا سکتا ہے۔ جب الفا گو نے انسانی کھلاڑیوں کو گو اور شطرنج جیسے پیچیدہ کھیل میں شکست دی، تو دنیا نے پہلی بار یہ مانا کہ مشین صرف حساب نہیں، حکمت بھی سیکھ سکتی ہے اور جب ٹیکسٹ لکھنے والی خودکار تحریری مشینوں نے شاعری، مکالمہ اور نثر کی تخلیق کی، تو سوال یہ ابھرا کہ کیا انسان کی تخلیقی اجارہ داری بھی ختم ہو چکی ہے؟
یہ ذہانت نیورل نیٹ ورک کی بنیاد پر کام کرتی ہے، یعنی ایسا خاکہ جو انسانی دماغ کی نقل ہے۔ مشین سیکھتی ہے، پہلے سے موجود معلومات سے، ہمارے روزمرہ رویوں سے، ہمارے سوالوں، ہماری آوازوں، ہمارے جذبات تک سے۔ ہر بار جب ہم کچھ تلاش کرتے ہیں، کوئی ویڈیو دیکھتے ہیں، یا کسی تصویر پر رک کر سوچتے ہیں، ہم نادانستہ اس مشین کو سکھا رہے ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ جو سیکھ رہی ہے، وہ علم ہے یا صرف پیٹرن؟ وہ جو سمجھ رہی ہے، وہ فہم ہے یا صرف پیش گوئی؟
مصنوعی ذہانت نے طب، زراعت، ماحول اور علم و فن کے ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اب تشخیص انسان سے پہلے مشین کرتی ہے۔ اب نظموں میں انسانی جذبات کی گونج مصنوعی ذہانت سے لکھی تحریروں میں سنائی دیتی ہے۔ اب کسان کو زمین کی نمی اور موسم کی خبروں کے لیے آسمان کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا، بلکہ وہ ایک آلہ تھامے بیٹھا ہے جو بتاتا ہے کہ کب بیج بوئے اور کب پانی دے۔
مگر یہ سب سہولتیں ایک قیمت پر آتی ہیں۔ قیمت ہے ہمارا ڈیٹا، ہماری ذاتی معلومات، ہماری پرائیویسی۔ آج کا انسان ایک ایسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں مشینیں صرف ہماری مددگار نہیں رہیں، بلکہ وہ ہمیں جاننے لگی ہیں۔ ہمارے فیصلوں سے پہلے سوچنے لگی ہیں اور جب ایک مشین انسان کے رویے، ترجیحات اور جذبات کو پہچاننے لگے، تو یہ سوچنا پڑے گا کہ علم کی اگلی سرحد کیا ہے؟
اصل مسئلہ صرف طاقتور الگوردمز یا نیورل نیٹ ورک نہیں، اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم ان مشینوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں اپنے تعصبات، جلد بازیوں اور مفاد پرستیوں سے تربیت دیں گے، تو وہ کل انہی اوصاف کو دنیا میں پھیلائیں گی۔ لیکن اگر ہم انہیں حقیقت، ہمدردی اور فہمِ انسانی سے روشناس کروائیں، تو شاید وہ ہماری عقل سے بھی آگے جا کر ہمیں خود سے بہتر انسان بنا دیں۔

