Kaghaz Kahani
کاغذ کہانی

زمین کی سطح پر تہذیبوں کی آمد سے پہلے، انسان اپنی یادوں کا محافظ تھا۔ اس کی تاریخ اس کے دماغ میں محفوظ تھی اور وہ سب کچھ جو دیکھا، برتا یا سوچا، صرف الفاظ میں اگلی نسل کو منتقل ہوتا۔ تحریر کا وجود نہ تھا اور نہ ہی وہ کوئی چیز محفوظ رکھ سکتا تھا سوائے اپنی یادداشت کے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی انسانوں کی تاریخ، الفاظ میں نہیں بلکہ تصویروں، غاروں کے نقش و نگار اور لوک داستانوں میں چھپی ہے۔
مگر جیسے جیسے انسان کی معاشرتی زندگی آگے بڑھی، اسے محسوس ہوا کہ صرف زبانی علم کافی نہیں۔ باتوں میں تحریف ہو جاتی تھی، نسل در نسل منتقل ہوتے ہوتے حقائق دھندلا جاتے تھے۔ سو، سب سے پہلے تصویر بنی۔ جنوبی فرانس کے غاروں میں بنائی گئی جانوروں کی تصویریں اور افریقہ کی پہاڑیوں پر کندہ مناظر، انسان کی پہلی تحریری کوششیں تھیں، تصویروں کے ذریعے اپنی بات کہنے کا ہنر۔
پھر آیا علامتی نظام، جسے "pictographs" کہا جاتا ہے۔ وادی سندھ، میسوپوٹیمیا اور مصر کی ابتدائی تہذیبوں میں یہ طریقہ اپنایا گیا۔ ایک مچھلی کی تصویر مچھلی نہیں بلکہ "کھانا" یا "پانی" کا مفہوم رکھتی تھی۔ یہ نظام جیسے جیسے پختہ ہوا، رموز بننے لگے اور یوں میسوپوٹیمیا میں پہلا باقاعدہ تحریری نظام "کونیفارم" ابھرا، جسے گیلی مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھا۔ مصر میں"ہائروگلیف" نے رسم الخط کو تصویروں سے الگ مقام دیا۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ سب کچھ محدود تھا۔ تحریر محفوظ تو تھی، مگر اس کے لیے مخصوص مواد اور بہت وقت درکار ہوتا۔ تختیاں بھاری تھیں، پتھر پر کندہ تحریر عام آدمی کی رسائی سے دور تھی۔ تب انسان نے لکھنے کے قابل بہتر سطح کی تلاش شروع کی۔ چین نے ریشم اور بانس کی مدد سے طومار بنائے، مصر نے پیپائرس کے پودے سے ہلکے وزن کی تختیاں بنائیں۔ مگر یہ مہنگے اور نایاب تھے۔
ادھر چین میں ایک اور انقلاب برپا ہونے کو تھا۔ ہان سلطنت کے ایک اہلکار "کائی لون" نے پہلی بار کاغذ ایجاد کیا۔ اس نے ریشے، بانس اور چھال کو ملا کر ایسا ہلکا، سستا اور قابل تحریر مواد تیار کیا جو آنے والی صدیوں کی سب سے بڑی ایجاد ثابت ہوا۔ یہ دوسری صدی عیسوی کا واقعہ تھا اور انسانی تاریخ نے ایک نیا رخ لیا۔
کاغذ کی ایجاد کے بعد تحریر عام ہوئی، لیکن ابھی بھی ایک مسئلہ باقی تھا، لکھنے کا عمل سست تھا۔ ہر کتاب ہاتھ سے لکھی جاتی، ہر نسخہ الگ الگ بنایا جاتا۔ علم اب بھی محدود تھا اور چند مخصوص طبقات تک ہی رسائی رکھتا تھا۔ تب ایک اور تہذیبی دھماکہ ہوا: پرنٹنگ پریس کی ایجاد۔
یورپ میں 15ویں صدی میں"یوهانس گٹنبرگ" نے پرنٹنگ پریس ایجاد کی۔ الفاظ کو سانچے میں ڈھالا گیا، کاغذ پر ایک ساتھ کئی صفحات چھپنے لگے اور کتابیں ہاتھ سے لکھنے کے عمل سے آزاد ہوگئیں۔ علم کی منتقلی میں پہلی بار رفتار آئی اور عوام تک پہنچنا شروع ہوا۔ یہ ایجاد وہ بنیاد تھی جس پر آگے جا کر نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کھڑے ہوئے۔
اس سے پہلے، اسلامی دنیا نے بھی علمی مواد کو محفوظ رکھنے اور منتقل کرنے میں عظیم کردار ادا کیا۔ بغداد کی "دارالحکمت"، قرطبہ کی لائبریری اور سمرقند کی علمی انجمنیں وہ مقامات تھیں جہاں یونانی، ایرانی اور ہندی علوم کا ترجمہ ہوا اور کاغذ پر محفوظ کیا گیا۔ بغداد میں کاغذ سازی کی صنعت چینی قیدیوں سے سیکھ کر پروان چڑھی اور اس نے دنیا بھر میں اسلامی علم کو پھیلایا۔
کاغذ اور طباعت نے صرف علم نہیں بدلا، طاقت کا توازن بھی تبدیل کیا۔ جہاں پہلے مذہبی پیشوا ہی سچ کے محافظ تھے، اب ہر شخص اپنی کتاب پڑھ سکتا تھا، سوال اٹھا سکتا تھا، جواب مانگ سکتا تھا۔ یورپ میں پروٹسٹنٹ تحریک ہو یا ہندوستان میں سیاسی شعور کی بیداری، سب کے پیچھے کاغذ کی چھپی ہوئی تحریریں تھیں۔
پھر ایک دور آیا جب طباعت الیکٹرانک ہوگئی اور اب ہم ڈیجیٹل عہد میں جی رہے ہیں۔ کتابیں اب ویب سائٹس پر ہیں، تحریریں کلاؤڈ میں اور طباعت اب کی بورڈ سے ایک بٹن کی دوری پر ہے۔ مگر انسان کی کہانی وہی ہے، یادداشت سے لے کر ڈیجیٹل ہارڈ ڈرائیو تک، ہر لمحہ محفوظ کرنے کی کوشش۔
یہ سب کچھ، صرف اس لیے کہ انسان جانتا ہے: جو محفوظ نہ ہو، وہ گم ہو جاتا ہے اور جو گم ہو جائے، وہ تاریخ سے مٹ جاتا ہے۔

