Hayatiati Technology Ka Mustaqbil
حیاتیاتی ٹیکنالوجی کا مستقبل

انسانی تاریخ میں پہلی بار، حیاتیات اور ٹیکنالوجی کی سرحدیں دھندلانے لگی ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے اب جینیات کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے اور اس کا اثر ایسا ہے جیسے کسی نے حیاتیات کی کتاب میں نئے ابواب کا اضافہ کر دیا ہو۔ CRISPR جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا ملاپ ایک ایسی کرشماتی دنیا کی تعمیر کر رہا ہے جہاں بیماریوں کا علاج ہماری خلیات کی سطح پر ممکن ہوگا۔
حالیہ برسوں میں AI نے جینوم کے ان گنت ڈیٹا کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا ہے۔ مثال کے طور پر گوگل کی ڈیپ مائنڈ نے AlphaFold نامی نظام بنایا ہے جو پروٹین کے تہہ در تہہ ساختوں کو صرف اس کے جینیاتی کوڈ سے ہی پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ ایجاد ادویات کی تیاری کے عمل کو انقلاب کی طرف لے جا رہی ہے۔ اب سائنسدان کینسر جیسی مہلک بیماریوں کے لیے ادویات کو تیزی سے ڈیزائن کر سکتے ہیں، جو پہلے کئی سالوں کا وقت لیتی تھیں۔
حقیقی دنیا میں اس کے استعمالات حیرت انگیز ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ ٹیکنالوجی موروثی بیماریوں کو ختم کرنے میں مدد کر رہی ہے، وہیں یہ فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر، سائنسدانوں نے گندم کی ایسی قسمیں تیار کی ہیں جو خشک سالی میں بھی اچھی پیداوار دے سکتی ہیں۔ یہ سب مصنوعی ذہانت کی مدد سے ممکن ہوا ہے جو لاکھوں جینیاتی مجموعوں کا تجزیہ کرکے بہترین نتائج پیش کرتی ہے۔
مگر یہ طاقت کچھ اخلاقی سوالات بھی جنم دیتی ہے۔ کیا ہم انسانوں کی جینیاتی تشکیل نو کرکے ایک بہتر نسل تخلیق کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ٹیکنالوجی معاشرے میں نئی ناانصافیوں کو جنم نہیں دے گی؟ جب دولت مند طبقہ اپنی اولاد کو جینیاتی طور پر بہتر بنا سکے گا تو کیا یہ معاشرتی تفاوت کو اور نہیں بڑھائے گا؟
آنے والے دس سالوں میں، ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہوں گے جہاں زیادہ تر بیماریوں کا علاج ہمارے جینز میں ہی ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر ہمیں کوئی دوا تجویز کرنے کے بجائے ہمارے جینوم کو ایڈٹ کر دیں اور شاید اگلی نسلوں کے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہو کہ کبھی انسانوں کو کینسر جیسی بیماریوں سے مرنا پڑتا تھا۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف ہماری زندگیوں کو بدل رہی ہے بلکہ ہمیں زندگی کے بنیادی تصورات پر بھی نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔

