China Ka Belt And Road Initiative Aur Purana Silk Road
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور پرانا سلک روڈ

شاہراہِ ریشم وہ راستہ جو مشرق و مغرب کے درمیان ایک ایسی شریان کی طرح بہتا رہا جس نے ہزاروں سال تک تہذیبوں کو خون فراہم کیا۔ یہ راستہ محض تجارتی قافلوں کی گزرگاہ نہیں بلکہ انسانی علم، مذہب، فن اور خیالات کے تبادلے کا وسیلہ تھا۔
چین کے قدیم شہروں"چانگ آن" اور "لوئیانگ" سے اٹھنے والے قافلے جب وسطی ایشیا کی برف پوش چوٹیوں اور صحراؤں سے گزر کر ایران کے میدانوں میں داخل ہوتے تو ان کے ساتھ صرف ریشم اور چینی کے برتن نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے کاندھوں پر کہانیاں اور رسمیں بھی سفر کرتی تھیں۔ یہ قافلے یونان تک پہنچے، روم تک جا بسے اور یورپ کے ذوق و شوق کو بدل ڈالا۔
ریشم اس راستے کا سب سے قیمتی خزانہ تھا، جس کی نرم چمک نے رومی شہنشاہوں کو دیوانہ بنا دیا۔ چین میں ریشم بنانے کا فن ایک راز کی طرح نسلوں سے نسلوں کو منتقل ہوتا رہا، یہاں تک کہ اگر کوئی کاریگر یہ راز باہر لے جانے کی کوشش کرتا تو اسے سزائے موت دی جاتی۔ مگر انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ راز کو زیادہ دیر سینے میں نہیں رکھتا۔ رفتہ رفتہ یہ فن وسطی ایشیا اور پھر یورپ تک پھیل گیا، مگر اس کے اصل سرچشمے کی عظمت کبھی کم نہ ہوئی۔
مگر شاہراہِ ریشم صرف سامان کی لین دین تک محدود نہیں رہی۔ یہ راستہ اس وقت کی سب سے بڑی یونیورسٹی بھی تھا۔ یہاں فلسفے نے سفر کیا، ریاضی نے زبانیں بدلیں اور طب نے نئے خطوں میں جگہ بنائی۔ ہندوستان کے ریاضی دانوں کے اعداد اور زیرو کا تصور جب عرب دنیا کے ذریعے یورپ پہنچا تو وہاں کی سائنس بدل گئی۔ فارسی شاعری اور داستانیں قافلوں کے سنگ یورپ کے درباروں میں جا پہنچیں اور عرب سائنس دانوں کی فلکیات کی کتابیں وہیں سے مغرب کی لائبریریوں تک گئیں، جہاں سے جدید سائنس کی بنیادیں اٹھیں۔
شاہراہِ ریشم نے مذاہب کے سفر کو بھی ممکن بنایا۔ بدھ مت کے راہب جب قافلوں کے ساتھ چین پہنچے تو وہاں کے دلوں کو ایک نئے سکون سے آشنا کیا۔ اسلام جب وسطی ایشیا کی وادیوں میں داخل ہوا تو قافلوں کے ساتھ ہی مساجد اور مدارس کی بنیادیں رکھی گئیں۔ یہ راستہ یوں ایک مذہبی اور روحانی سفر کی کہانی بھی بن گیا، جہاں ایمان اور عقیدہ قافلوں کی رفتار کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
راستے کی صعوبتیں اپنی جگہ ایک الگ داستان ہیں۔ ریت کے صحراؤں میں تیز آندھیاں قافلوں کو نگلنے کے لیے تیار رہتیں، برفانی پہاڑ اپنی سختی سے انسان کو جھکنے پر مجبور کرتے اور ڈاکوؤں کے حملے ہمیشہ ایک اندیشہ بنے رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ راستے پر "کارواں سرائیں" تعمیر کی گئیں۔ یہ کارواں سرائیں محض آرام گاہیں نہیں بلکہ ثقافتی مراکز بھی تھیں۔ یہاں ایک کمرے میں فارسی تاجر اپنے مال کی تشہیر کرتا، دوسرے کمرے میں ہندوستانی عالم فلسفہ بیان کرتا اور ایک گوشے میں چینی کاریگر اپنے برتن سجاتا۔
شاہراہِ ریشم کے کنارے کئی شہر پروان چڑھے۔ سمرقند، بخارا، کاشغر اور ختن جیسے شہر علم و فن کے مراکز بن گئے۔ سمرقند میں تیمور کے دربار نے علم کی سرپرستی کی اور فلکیات کی عظیم رصدگاہیں تعمیر کیں۔ بخارا کی لائبریریوں میں علم کے ذخیرے محفوظ ہوئے جنہوں نے بعد میں اسلامی تہذیب کو عروج بخشا۔ ان شہروں کا وجود محض اتفاق نہیں تھا بلکہ وہ اسی راستے کے دھڑکتے دل تھے۔
شاہراہِ ریشم کی وجہ سے زبانیں بھی بدلیں۔ فارسی اور ترکی نے مل کر ایک نئی لسانی فضا قائم کی۔ عربی کے الفاظ وسطی ایشیا میں رچ بس گئے۔ چینی رسم الخط نے نئے خطاطی کے انداز پیدا کیے۔ یوں یہ راستہ لسانیات کا بھی استاد بن گیا۔
اس راستے کی ایک اور کہانی بیماریوں کی ہے۔ جب قافلے ایک خطے سے دوسرے خطے میں جاتے تو ان کے ساتھ محض مال نہیں بلکہ بیماریاں بھی سفر کرتی تھیں۔ یہی راستہ تھا جس سے "طاعون" یورپ تک پہنچا اور لاکھوں انسانوں کو نگل گیا۔ یوں شاہراہِ ریشم نہ صرف خوشحالی بلکہ تباہی کا ذریعہ بھی بنی۔
وقت کے ساتھ سمندری راستے کھلے۔ پرتگالی مہم جوؤں نے بحر ہند کے پانیوں پر قبضہ کیا۔ ہسپانوی اور ڈچ تاجروں نے بحر اوقیانوس کے راستے نئی دنیا کو کھوج نکالا۔ اب شاہراہِ ریشم کی چمک ماند پڑنے لگی۔ قافلے کم ہوتے گئے، کارواں سرائیں ویران ہوگئیں اور وہ بازار جو کبھی شور سے گونجتے تھے اب سنسان ہو گئے۔
مگر شاہراہِ ریشم نے اپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑا جو آج بھی زندہ ہے۔ جدید دنیا کی "globalization" اسی شاہراہ کی بازگشت ہے۔ آج کے زمینی اور ہوائی راستے اسی قدیم خواب کی تعبیر ہیں کہ دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ آج چین "نیو سلک روڈ" یا "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" کے ذریعے اسی پرانی شریان کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ گویا تاریخ ایک چکر کاٹ کر دوبارہ وہیں پہنچ گئی ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا۔

