Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Tajaddod, Radd e Tajaddod Aur Dr. Amin Sahib

Tajaddod, Radd e Tajaddod Aur Dr. Amin Sahib

تجدد، ردِ تجدد اور ڈاکٹر امین صاحب

محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ناچیز کے ساتھ مکالمے کو "خوش آمدید" فرمایا ہے جس پر میں ان کا ممنون ہوں۔ میں اسے بھی ان کی بندہ نوازی سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے "متجدد" قرار نہیں دیتے، لیکن "متجددین کا حمایتی" سمجھتے ہیں۔ بندہ نوازی اس لیے کہ اگر وہ مجھے سیدھا متجدد ہی کہہ دیتے تو میں بھلا کیا کر سکتا تھا؟ میری تحریریں ردِ مغرب اور ردِ تجدد پر گواہ ہیں، لیکن علمی تحریریں تکفیری تناظر میں بار نہیں پا سکتیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تفہیم اور ردِ مغرب کا پورا تناظر محض ایک غلط فہمی ہے کیونکہ اس کا مقصد تکفیرِ کفر کی تحصیلِ حاصل ہے اور جس سے لایعنی سرگرمی کوئی ہو نہیں سکتی۔

ہمارے ہاں تکفیری علوم کی شدتِ غلبہ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تکفیر عالمگیر (globalize) ہوگئی اور ہم عصر دنیا کو دیکھنے کا کوئی علمی روزن باقی ہی نہیں رہا ہے۔ ردِ تجدد کی پوری سرگرمی بعینہٖ وہی ہے جو تحریک وہابیت اور بعد ازاں آقائے سرسید کے زمانے سے چلی آتی ہے کہ مسلم تاریخ، مسلم معاشرے، مسلم کلچر، مخاصمانہ علوم اور مسلم فرد کی تکفیر کی جائے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ افتا اور قضا کے ایک محدود دائرے میں تکفیر ایک شرعی ضرورت ہے، لیکن عمومی تکفیر نے ہماری مذہبی روایت اور معاشرے کے تار و پود بکھیر دیے ہیں۔ علم، اخلاق اور شریعت تکفیری ذہن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کے ہاں درکار چیز صرف فتوے کی گرم بازاری ہے۔

محترم ڈاکٹر صاحب کی متن فہمی اور دلیل سازی کی داد بھی بنتی ہے کہ تجدد پر میری کسی تحریر کو درخود اعتنا نہیں سمجھتے کیونکہ میں سرسید کے لیے "آقا" کا لاحقہ استعمال کرتا ہوں اور تجدد کے اصولِ مقومہ کی تشکیل پر محترم غامدی صاحب کے اس دائرے میں کام کو "عظیم" قرار دیتا ہوں۔ یہاں وہ مکالمے کی تہذیب اور دلائلِ علمی میں امتیاز نہیں کر پا رہے۔ مخاصم کے مقام و مرتبے اور موقف کی درست تفہیم مکالمے کی شرطِ اول ہے جس کے لیے احترامِ آدمیت اور دیانت داری درکار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امین صاحب کا خیال ہے کہ مخاصم کا انسانی اوصاف سے متصف ہونا مکالمے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

اس لیے مخاصم کو اولاً dehumanize کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ بھی ردِ تجدد کے دیگر مجاہدین کی طرح حسن الیاس صاحب کے حوالے سے "داماد، داماد" کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر صاحب رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ اس انسانی رشتے کا علم یا علمی مکالمے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ میں اس رویے کو انسانی وقار اور اخلاق کے منافی سمجھتا ہوں کیونکہ اس کا واحد مقصد تضحیک اور تذلیل ہے مکالمہ کرنا نہیں ہے۔

"البرہان"، اکتوبر سنہ 2025ء، میں محترم ڈاکٹر صاحب نے "غامدی صاحب کے تجدد کی حقیقت" کے زیر عنوان جو مضمون شائع کیا ہے اس میں وہ محترم غامدی صاحب اور اہل تجدد کو دبے دبے لفظوں میں کافر ہی کہہ رہے ہیں۔ آقائے سرسید سے برسرپیکار اہل روایت میں اتنی حمیت اور اخلاقی جرات تھی کہ وہ انھیں سیدھا کافر ہی کہتے تھے۔ اب یہ جرات بھی جاتی رہی ہے۔ اس کام کے لیے "گمراہ" کا لفظ ایجاد کیا گیا ہے اور حال ہی میں وہ "سو مقتدر علما" کا فتوائے گمراہی بیچ مسئلہ گمراہی جناب عمار خان حاصل کر چکے ہیں۔ مذہب کو جتنا نقصان تجدد سے پہنچا ہے، تکفیر سے کیا کم رہا ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب تجدد اور تجدید کی تعریف میں بھی الجھ گئے۔ تجدد اور تجدید دونوں اجتہاد کی ہی قسمیں ہیں، لیکن ان میں کارفرما اصولِ تعبیر اور اصول دین /علمیاتی اصول مختلف ہیں۔ دونوں کا مقصود بقول ڈاکٹر صاحب "اصل دین" کو سامنے لانا ہے۔ تجدیدی اور متجددانہ مواقف بنیادی طور پر اصولوں کے انتاجات ہیں۔ دین قطعی الثبوت ہے لیکن قطعی الدلالات نہیں ہے اور جنگ کا محل یہی دلالات اور تعبیرات ہیں۔ محترم غامدی صاحب اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور روایتی دلالات اور تعبیرات کو کھسوٹنے (appropriate) کے لیے انھوں نے نئے اصول وضع کیے ہیں اور ہمارے اہلِ روایت اپنے کلاسیکل اصول بھی بھول گئے ہیں۔ برصغیر میں تجدد کی پوری روایت کو دیکھ لیں اس میں کوئی بھی متجدد تکفیری نہیں ہے جبکہ تمام اہل روایت مکمل تکفیری ہیں اور اس تکفیر کی بنیاد اہل روایت کی ادعائیت ہے کوئی اصول نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اصول باقی ہی نہیں رہا ہے۔

ڈاکٹر صاحب تجدد کے خلاف مسلم رسپانس کو بھی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزارش ہے کہ روایتی موقف کا اگلی نسلوں تک صرف منتقل ہونا کوئی معنویت نہیں رکھتا۔ روایتی موقف کا اصول کے ساتھ منتقل ہونا بامعنی ہے۔ شریعت میں اہمیت استناد کی ہے جبکہ اصول میں اہمیت دلیل کی ہے۔ ہماری حالیہ تاریخ مذہبی تجدد کے خلاف مسلم ردِ عمل تو ریکارڈ کرتی ہے، مسلم رسپانس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ تحریک وہابیت کے ساتھ "اصل اسلام کیا ہے؟" اور "مسلمان کون ہے؟" کے جو سوالات پیدا ہوئے، ان کے سامنے ہمہ قسم کے اصول وفات پا گئے تھے اور فتویٰ کا غلبہ ہوگیا۔

فتویٰ اس وقت بامعنی ہوتا ہے جب اس کی پشت پر قضا موجود ہو۔ اس کی عدم موجودگی میں فتویٰ سماجی اور ثقافتی مؤثرات اور سیاسی اور معاشی قوتوں کی اشیرباد حاصل کرتا ہے اور ایسا کرتے ہی آلاتی ہو جاتا ہے اور تکفیری علوم کے علاوہ کچھ باقی ہی نہیں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب عالم بننے کی کوشش تو بہت کرتے ہیں لیکن اندر سے دم بہ دم تکفیر پھوٹ بہتی ہے۔ وہ وعظ کرتے ہیں یا فتویٰ دیتے ہیں اور وہ علمی گفتگو بھی انھی دو شرائط پر کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا بھر کے ہر مسلم معاشرے کے سو فیصد سیاسی، معاشی اور سماجی ادارے مغربی فکر و عمل پر اساس رکھتے ہیں اور اس فکر کو ڈاکٹر صاحب بجا طور پر کفر و الحاد قرار دیتے ہیں۔ اگر پوری مسلم امہ کی صورت حال یہ ہے تو کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ انھیں تجدد صرف مذہبی علم اور خاص طور پر محترم غامدی صاحب اور ان کے پیشروؤں کے ہاں نظر آتا ہے؟ اس میں سہولت یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو تجدد عملاً قائم ہو جائے وہ کچھ عرصے کے بعد "اسلامائز" ہو جاتا ہے۔ عملی تجدد ان کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے اور ردِ تجدد اور تکفیر کا رخ ان کے "پسند" کے لوگوں کی طرف مڑا رہتا ہے۔ مسلم معاشروں میں تجدد کو بڑی شاہراہیں ملائی سیاست نے عملاً فراہم کی ہیں۔

لیکن ڈاکٹر صاحب کبھی ان کا تجزیہ نہیں کریں گے اور نہ ان کے منابع تلاش کرنے کا کوئی علمی منصوبہ شروع کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب دل دردمند رکھتے ہیں اس لیے وہ "سادہ لوح عوام کو غامدی صاحب کے انحرافات سے بچانے کی کوشش میں" لگے ہوئے ہیں۔ نظم معاشرہ میں آرگنائزیشن کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور جو دینی معاشرت کا خاتمہ کر دیتی ہے اور معاشرے میں تجدد اور سیکولرائزیشن کا سب سے بڑا انجن ہے، ڈاکٹر صاحب سے گزارش ہے کہ کبھی اس کا تجزیہ بھی فرمائیں۔ اب "سادہ لوح عوام" کو انحرافات سے بچانے کے لیے تکفیری تزویرات زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ تکفیری علوم کے شدید غلبے نے ہمارے معاشرے اور ذہن کے ہر گوشے کو زہر آلود کر دیا ہے اور مکالمے کے امکانات مخدوش ہیں۔ یہ منصوبہ طویل عرصے تک مسلم معاشرے کا اندرونی مسئلہ رہا ہے لیکن آتشِ تکفیر کی شدت اس قدر ہے کہ اب یہ عالمی (globalize) ہوگیا ہے۔ تفہیم مغرب اصلاً تکفیرِ کفر کا علمی منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب عین اسی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں"مَیں نے اپنی تین کتابوں میں [اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش، اسلام اور مغربی اصطلاحات کا تقابلی مطالعہ، اسلام اور ردّ فکر مغرب] یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کی فکر و تہذیب غیر اسلامی ہے"۔ یعنی تفہیم مغرب والوں کے تتبع میں وہ بھی ابوجہل کو کافر و مشرک ثابت کرنے کے لیے کتابیں لکھ رہے ہیں! یہ عمر اور ایسی تصنیفات و تالیفات! میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali