Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Tabeer e Din, Mutwazi Ya Sirati?

Tabeer e Din, Mutwazi Ya Sirati?

تعبیرِ دین، متوازی یا صراطی؟

میں نے 31 جولائی کو محترم غامدی صاحب کے حوالے سے ایک تحریر احباب کے ساتھ شیئر کی تھی۔ اس تحریر کے مقصد کو پسِ تحریر بیان کرنا تحصیلِ حاصل ہے کیونکہ وہ اپنے مقصد کو خود بیان کرتی ہے۔ اس تحریر کے آخر میں امام عالی مقام ابوحامد غزالیؒ کے حوالے سے اصل مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اہلِ علم کی اصل ذمہ داریوں میں سے ایک، علم کے علمیاتی اور وجودی تعینات کو قائم کرنا اور دین سے ان کی لابدی نسبتوں کو نظری علم میں رہتے ہوئے طے کرنا ہے۔

ہدایت/وحی/دین سے علم کی ناگزیر نسبتوں کو طے کرنے کی ذمہ داری اس فریضے سے مابعد ہے، ماقبل نہیں ہے۔ ہر علمیاتی اور ہرمینیاتی موقف دین کی تعبیر پر حتمی طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے۔ ہماری ثقافت کی موجودہ انتشاری فضا میں، اس بات کو محترم غامدی صاحب سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا اور اپنی اسی بصیرت کے باعث انھوں نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب "میزان" کا آغاز میں دین کی تفہیم و تعبیر کے "اصول و مبادی" طے کر دیے ہیں۔ یہ کام انھوں نے جس ترتب اور صراحت سے کیا ہے، گزشتہ دو سو سال میں کسی دوسرے صاحبِ علم کے ہاں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

میں ان کی فکر کا رد کرنے والوں کے کام سے میں باخبر ہوں۔ میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ ان کی بنیادِ اختلاف صرف یہ کہ محترم غامدی صاحب کی آرا کلاسیکل /اسلامی/ روایتی آرا سے مختلف ہیں۔ صرف اتنی آگہی کی بنیاد پر کوئی رد واقع نہیں ہو سکتا۔ رد کے لیے اصول میں مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

روایتی طور پر، دین سے علمی اور فکری تعامل کے لیے جو اصول مرتب ہوئے وہ صرف "اصول دین" یا علم الکلام اور "اصول فقہ" پر مشتمل تھے جو بالترتیب ایمان اور شریعت کو علم کا موضوع بناتے تھے۔ مؤخر الذکر کو مولانا محمد ایوبؒ نے ایک جگہ "ہمارے قوانینِ فہم" قرار دیا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ گزشتہ دو سو سال میں تجدد کا رد کرنے والے اصحاب کی تحاریر اور دینی مواقف سے ان روایتی اصولوں کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا ان کا تجدد سے ہے۔

انیسویں صدی کے آغاز سے برصغیر میں جس great debate کا آغاز ہوا، اس کا موضوع ہی یہ تھا کہ "اسلام کیا ہے؟" یعنی اصل اسلام کیا ہے اور "مسلمان کون ہے؟" اور یہ سوال اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک "علم کیا ہے؟" اور "تعبیری اصول کیا ہے؟" کے سوالات کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ یعنی اصلی میدان جنگ دینی متون نہیں ہیں، بلکہ وہ اصول و مبادی ہیں جو علم کی تشکیل اور تعبیر میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ علم اور تعبیر کے اصول ناگزیر طور پر دین کی تعبیر پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ اصول صرف عقلی اور نظری ہو سکتے ہیں اور ان میں کارفرما نظام استدلال کا ثقہ اور معروف ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ استعمار زائیدہ تجدد کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کم از کم دو سو سال پرانا ہے۔

محترم غامدی صاحب کے ہاں محولہ بالا "اصول و مبادی" کا مرتب ہو کر "میزان" کا مقدمہ بننا طویل کارِ تجدد کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جو مسلسل کامیابی سے اسے حاصل ہوا ہے۔ برصغیر میں تجدد کی جو تاریخ ہے اس میں "میزان" کو مصحفِ تجدد کی حیثیت حاصل ہے۔ "میزان" کو میں بنیادی طور پر فقہ کی کتاب سمجھتا رہا ہوں اور اس میں درج مقدمے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن محترم غامدی صاحب نے "میزان" کے نئے اڈیشن میں اب دو مقدمات شامل کیے ہیں جو ان کی فکرکے ارتقا کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس میں اہم نکتہ ان کا یہ ادراک و اذعان ہے کہ عقیدے اور عمل کے مسائل کو ایک اصول کے تحت زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔

ان کا مقدمہ اول روایتی اصول فقہ کا متبادل اور اس کی replacement ہے یعنی ان کی نئی ہرمینیات ہے جبکہ مقدمہ دوم عقیدے کے مسائل کو زیر بحث لاتا ہے جو اصول دین یا روایتی علم الکلام کا متبادل اور اس کی replacement ہے۔ ان دو مقدمات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارِ تجدد نئے اصولوں سے بننے والا اپنا تعبیری بیانیہ مکمل کر چکا ہے۔ یہ دونوں مقدمات روایتی اصول دین اور اصول فقہ سے کسی بھی درجے میں اور کسی بھی اسلوب میں قطعی کوئی مماثلت نہیں رکھتے۔ یہ بالکل نئی چیز ہیں اور جب ان کا اطلاق ہوگا تو روایت سے منتقل ہونے والی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ سکتی۔

محترم غامدی صاحب اپنے صوابدیدی طور پر طے کردہ اور عقل کی بنیاد پر ناقابل دفاع "اصول و مبادی" کی بنیاد پر ہی تصوف کو متوازی دین قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے "اصول و مبادی" کے تیشوں سے انھوں نے دین کی جو نئی عمارت تعمیر کی ہے اس میں تصوف کی کوئی گنجائش ہی پیدا نہیں ہو سکتی اور یہی اصل نکتہ ہے کہ اصول و مبادی، جو اپنی نوعیت میں سرتاسر علمیاتی اور ہرمینیاتی ہوتے ہیں، دین کو مکمل طور پر بدل دینے، یہاں تک کہ عقیدے کی تشکیل نو کی بھی استعداد رکھتے ہیں۔

اس کی ایک اور مثال نزول مسیح کا عقیدہ ہے جس کے بارے میں محترم غامدی صاحب کا موقف ہے کہ غلط ہے جبکہ امام العصر مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے نزول مسیح کا انکار کرنے والے کو صریحاً کافر لکھا ہے۔ یہ کوئی علمی اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہاں دین کی پوری معنویت ہی داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں ہم ابھی انیسویں صدی کے آغاز پر ہی کھڑے ہیں اور "اسلام کیا ہے؟" اور "مسلمان کون ہے؟" کا مسئلہ آج بھی اسی طرح لاینحل ہے جیسا کہ اس وقت تھا۔

میری گزارش یہ ہے کہ محترم غامدی صاحب اپنے صوابدیدی طور پر طے کردہ اصول و مبادی کی بنیاد پر اگر تصوف کو متوازی دین قرار دیتے ہیں تو کلاسیکل اسلام کے قابل دفاع علمیاتی اور ہرمینیاتی اصولوں کے مطابق خود فکر غامدی اسلام کے بالمقابل ایک متوازی دین ہے۔ محترم غامدی صاحب کے اصول و مبادی سے بننے والی تعبیر کو صراطی اسلام کہنا محض خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari