Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Novel Ya Film?

Novel Ya Film?

ناول یا فلم؟

ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری صاحب اپنی دو اپریل، سنہ 2025ء کی تحریر میں فرماتے ہیں: "ناول زیادہ مؤثر ہے یا فلم؟ یہ سوال اکثر تنگ کرتا ہے۔ سوال کا اندرونی نکتہ یہ ہے کہ فلم دیکھتے [ہوئے] مطلوبہ شے کو بغیر کسی محنت کے چلتے، پھرتے، بولتے آنکھوں [کے] سامنے دیکھ لینے میں جو سہولت اور لطف ہے، یہ سہولت اور لطف کسی گہری تاثیر سے محروم رہ جانے کی قیمت پر تو نہیں جو صرف محنت کرکے کتاب پڑھ لینے والے کو ہی حاصل ہو سکتا ہے؟"

اس سوال کا تجزیہ کرنے سے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ فلم اور ناول دونوں اصنافِ فن (art forms) ہیں اس لیے ان میں تخیل اور پیکریت (imagery) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور مسئلے کی تفہیم کے لیے انھیں کو موضوع بنانا چاہیے۔ عقل کی طرح، تخیل بھی شعور کا فاعلی اصول ہے لیکن اس میں تخلیقیت اضافی ہے۔ عقل تصورات (concepts) کی تشکیل کرتی ہے اور تخیل پیکرات (images) بناتا ہے۔ تصورات علم کے building blocks ہیں جبکہ پیکرات آرٹ اور فن کے تشکیلی اجزا ہیں۔ عقل کے تصورات میں ایک طرح کی نوعی یکسانیت اور میکانکیت ہوتی ہے اور ان سے جذبے اور جمال کے اجزا خارج ہوتے ہیں، جبکہ تخیل کی پیداوار زیادہ متنوع ہوتی ہے۔ پیکرات حسیت، حافظہ، جذبہ، جمال اور قوتِ تحولی (transformative power) اور قوت تلافی (compensatory power) کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح پیکر (image) تصور (concept) سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پیکرات (images) بصری، سمعی، لمسی اور ذائقہ یا شامہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ عقل زمان و مکاں کی اسیر یعنی خرد زمان و مکاں کی زناری ہے جبکہ تخیل speculation بن کر زمان و مکاں کو transcend کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر اس کو خبرِ غیب کے پر لگ جائیں تو لامکاں کی بھی خبر دھر لاتا ہے۔

عقل کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ وہ انسان کے طبعی ماحول اور دنیا کو اس کے لیے قابل فہم بنا دے۔ نیچر اور دنیا انسان کے شعور سے خارج میں ہیں اور عقل اور تخیل دونوں کا موضوع ہیں۔ تخیل کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا و کائنات میں انسان کے تجربے کو اس کے لیے قابلِ فہم اور قابل اظہار بنا دے۔ علوم اور شاعری میں بنیادی فرق یہیں سے پیدا ہوتا ہے اور جو انسانی تجربے کی توسیط کا ہے۔ علم میں دنیائے خارج کی توسیط وقت کی گرفت میں ہوتی ہے اس لیے وقت اسے مندرس (obsolete) بنا دیتا ہے جبکہ تخیل کی کارفرمائی آرٹ اور فنون لطیفہ کو لازمانی بنا دیتی ہے۔ جیسے کہ سوفوکلیز کے ڈرامے اور مولانا روم کی شاعری سے ظاہر ہے۔

لفظ ساخت اور لاساخت کا مجموعہ ہے۔ ساخت لفظ کی ظاہری ہیئت ہے جبکہ لاساخت معنی ہے۔ ساخت کانٹا ہے اور لاساخت اس کی نوک پر ٹکا ہوا پانی کا قطرہ۔ لفظ محتاجی ہے اور معنی آزادی۔ عالم شہود میں ہم آنکھ سے دیکھتے ہیں، جبکہ عالمِ خواب میں "دیکھنا" آنکھ کا پابند نہیں۔ عقل معنی کو "آنکھ" سے دیکھنا اور جاننا ہے جو لفظ کی چولوں میں کسا ہوتا ہے جبکہ تخیل معنی کے طائر لاہوتی کا تعاقب ہے۔ کاسۂ لفظ معنی کی خیرات کا محتاج ہے اور معنی لفظ سے ورا وفورِ وجود ہے۔ جس طرح زمین پر چلنے کے لیے پاؤں درکار ہوتے ہیں، اسی طرح سرزمین شعور پر چلنے کے لیے معنی کو لفظوں کے پاؤں درکار ہوتے ہیں۔ عقل لفظوں کی صناعی ہے اور تخیل معنی کی ہم خرامی۔ جس طرح یہ ممکن ہے کہ لفظ معنی سے خالی ہو، اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں معنی لفظ کا محتاج نہ ہو۔ تخیل ایسے جہانوں کی سیر ہے جہاں معنی لفظ کے بغیر ہوں۔

عقل معنی کو مادی تقیدات میں گھیرنے پر ضد کرتی ہے اور فلم اسی ضد سے پیدا ہونے والا آرٹ ہے۔ فلم میں ہر گزرگاہِ معانی لفظوں کے چابک برداروں کے محاصرے میں ہوتی ہے۔ پروین شاکر کی برموقع یاد آ گئی:

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

اس میں صرف یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے اب کامیاب بھی ہو گئے ہیں کیونکہ اب صرف کیڑا رہ گیا ہے اور جگنو فوت ہوگیا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan