Molana Azad Ke Huzoor
مولانا آزاد کے حضور

ابھی ابھی ایک محترم کی تحریر سے پتہ چلا ہے کہ مولانا آزاد سے مرا نہیں جا رہا۔ مرے ہوؤں کے بارے میں کہنا کہ ان سے مرا نہیں جا رہا پرلے درجے کی بدذوقی ہے کجا یہ کہ اس پر ادبیت بھی بگھاری جائے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ وہ بہت جری تھے اور مار کے مرنے والوں میں سے تھے۔ وہ کوئی رائے بنا لیتے تو کبھی مان کے نہیں دیتے تھے لیکن ابھی معلوم ہوا کہ وہ مر کے بھی نہیں دے رہے۔ مولانا آزاد اللہ بخشے عجب آزاد مرد تھے، نہ بکے، نہ جھکے اور اب پتہ چلا کہ مرے بھی نہیں۔ ایسے دعوے کافی تشویشناک ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پھر آخر گئے تو کہاں گئے؟ گزارش ہے کہ تاریخ کے کچھ واقعات، کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں دفن ہوتے ہیں اور نہ زمین میں، ان کی تدفین قوموں کے اجتماعی شعور میں ہوتی ہے۔ مولانا آزاد برصغیر کے مسلم تہذیبی شعور میں ایک بارودی سرنگ کی طرح دفن ہیں اور اس شعور کی، جو کہ اپنی بنیادی ہیئت میں مذہبی ہے، سب سے بڑی انہدامی قوت ہیں۔ اس لیے مغالطہ سا لگ جاتا ہے کہ وہ مرے یا نہیں؟
مولانا آزاد کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ وہ برصغیر کی جدید تاریخ میں ہمارے اساطین میں سے ہیں اور میں ان کی سوئے ادبی کو شدید درجے میں قابل مذمت سمجھتا ہوں۔ لیکن یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ میں ان کی مذہبی اور سیاسی فکر سے عدم اتفاق کی وجہ سے اس پر بہت سے سوال رکھتا ہوں اور اپنے تہذیبی تناظر میں مولانا کی فکر کو سمجھنا ضروری خیال کرتا ہوں اس لیے بار بار ان کے ہاں حاضری لازمی ہو جاتی ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی اہم ہے کہ وہ اردو ادب کے بھی بڑے لوگوں میں سے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ میں نے بڑے مجاہدے سے خود کو "غبار خاطر" کے سحر سے واگزار کیا تھا۔ یہ فیصلہ ہوتا رہے کہ وہ مرے یا نہیں، لیکن یہ تو یقینی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے ہیں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت کا معاملہ فرمائے اور ان کی خیر کو باقی رکھے اور ثمر آور فرمائے۔
عرض ہے کہ مذہب کی ہدایت دوٹوک ہوتی ہے اور اس سے جو مذہبی عمل سامنے آتا ہے وہ بھی تعیناتی صراحت لیے ہوئے ہوتا ہے اور یہ عین فطری بات ہے۔ لیکن جب ہمارے ہاں مذہبی سیاسی عمل شروع ہوا تو وہ فرقہ وارانہ مذہبی عمل نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی عمل تھا۔ سیاسی عمل ایک بالکل ہی جدید اور نئی چیز ہے اور اس کو سمجھنے میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں۔ آدمی یقیناً مذہبی اور غیرمذہبی ہوتا ہے لیکن جدید سیاسی عمل، مذہبی غیر مذہبی نہیں ہوتا اور آدمی اور عمل کی نسبتیں ہمارے ہاں نامعلوم کے درجے میں ہیں۔ جدید سیاسی عمل میں شریک آدمی کی مذہبیت اور غیرمذہبیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ آدمی صرف اس وقت اہم ہوتا ہے جب وہ کسی نظریاتی جواز کے ساتھ سیاسی عمل کی نکیل پکڑ لے، یعنی صرف کامیاب لیڈر ہی سیاسی عمل پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ سیاسی عمل طاقت کی سفاک حرکیات کا مظہر ہوتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا۔
فرقہ وارانہ مذہبی عمل اور مذہبی سیاسی عمل کی حرکیات قطعی مختلف ہوتی ہیں۔ فرقہ وارانہ مذہبی عمل میں مذہب کسی نہ کسی حوالے کے طور پر موجود رہتا ہے اور مذہب کا حوالہ دے کر انسان کے رویوں پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے، یا کم از کم انھیں اللہ نبی کا واسطہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن مذہبی سیاسی عمل کی شدت قطعی مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس میں عمل کا تعین کنندہ مذہب نہیں ہوتا، نظام کے اندر رہتے ہوئے طاقت اور سرمائے کے مؤثرات ہوتے ہیں۔ طاقت اور سرمائے کے نظام میں داخل ہوتے ہی سیاسی عمل کے مؤثرات ہی اہم ہوتے ہیں اور وہی عمل کا تعین کرتے ہیں۔ مذہبی فرقہ وارانہ عمل کی حرکیات میں صحیح اور غلط غالب ہوتے ہیں کیونکہ اس میں بنیادی حوالہ تعلیمات ہوتی ہیں۔ بریلوی کہتا ہے کہ میں صحیح ہوں اور دیوبندی کہتا ہے کہ میں صحیح ہوں اور اس عمل کے فیصلے کے لیے کتابوں کی طرف لوٹنا ضروری ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔
سیاسی عمل میں کتابیں زیر بحث نہیں ہوتیں، تخت پر قبضہ اہم ہوتا ہے اور سر داؤ پر لگے ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل کی حرکیات سے شعور کی تعلیماتی ترجیحات خارج ہوتی ہیں کیونکہ نظام کے اندر عمل کے تمام تر تعینات طاقت اور سرمایہ کرتے ہیں۔ یہ لابدی اس لیے ہے کہ سیاسی عمل کی قطبیت صحیح یا غلط نہیں ہوتی بلکہ دوست اور دشمن کی ہوتی ہے، جیسے کہ کارل شمٹ کے غیرمعمولی تجزیات سے سامنے آتا ہے۔ اسی باعث سیاسی عمل میں ایک سفاکیت داخل ہو جاتی ہے بھلے وہ مذہبی ہو یا نہ ہو۔ مثلاً ہٹلر کوئی مذہبی آدمی نہیں تھا اور کمیونسٹوں کے سیاسی عمل کی سفاکی کو کون فراموش کر سکتا ہے، یا پیچھے تاریخ میں فرانسیسی انقلاب بطور سیاسی عمل ناقابل یقین حد تک سفاک تھا اور مذہب کو قطعی نابود کرنے کا ایجنڈا رکھتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سفاکیت کہاں سے آئی تھی؟
ہمارے ہاں تین چیزوں کا ایک مہلک ملغوبہ بن گیا ہے: تکفیری علوم، فرقہ وارانہ مذہبیت اور طاقت کا سیاسی عمل۔ اس میں تکفیری علوم اور فرقہ وارانہ مذہبیت کی حیثیت زیادہ تر آلاتی ہے جسے طاقت اور سرمائے کا حاضر سروس نظام اپنے مقاصد کے حصول اور عوام کی سیاسی امنگوں کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تشدد اور تکفیر میں تعلق لزومی نہیں ہے، التزامی ہے اور یہ التزام سیاسی طاقت کرتی ہے کیونکہ وہ غالب ایجنسی کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے۔ تشدد، تکفیر کا لازمی نتیجہ نہیں ہے جبکہ تشدد طاقت کی لازمی صفت ہے اور طاقت ہی کا ایک مظہر ہے۔ تشدد کسی بھی مذہبی عمل کی صفت نہیں ہے بھلے وہ تکفیر ہی کیوں نہ ہو۔ فرقہ وارانہ مذہبی عمل میں تشدد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طاقت اسے بھرتی کرتی ہے، یعنی جب فرقہ وارانہ مذہبی عمل اور سیاسی عمل میں اتحاد قائم ہوتا ہے۔
وہ تشدد مذہب سے اس سیاسی عمل میں داخل نہیں ہوتا بلکہ طاقت کی لازمی صفت کے طور پر اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ تشدد مذہب کی خلقت نہیں ہے جبکہ طاقت کی خلقت ہی تشدد ہے۔ سیاسی عمل ہمیشہ all or none law کے طور پر کام کرتا ہے، جبکہ علمی کارگزاری اس اصول پر واقع نہیں ہوتی۔ لیکن ہماری فرقہ وارانہ مذہبیت کے آلاتی استعمال سے فضا اس قدر مسموم ہوگئی ہے کہ علمی سوالات پر ججمنٹ بھی سیاسی عمل سے لائی جانے لگی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ ہمارے علمی مباحث بھی all or none law کے تحت کام کرتے ہیں۔ یعنی اختلاف کا جو علم کی نشانی ہے نشان ہی مٹ گیا اور دشمنی جو سیاست کا خاصہ ہے ہر طرف چل پڑی اور ہر علمی مکالمے میں بھی گھس گئی۔ اسی باعث علمی مباحث میں کوئی اخلاقی اور تہذیبی پہلو بھی باقی نہیں رہ سکا۔
یہ اطناب صرف اس عرض گزاری کے لیے ضروری ہوا کہ ہمیں مولانا آزاد سے کوئی دشمنی نہیں ہے، بس تاریخی اور تہذیبی تناظر میں علمی اور فکری اختلاف ہے۔ مولانا کے مقام اور مرتبے کے اعتراف کے ساتھ ان کے افکار اور سیاسی فیصلوں پر علمی گفتگو پر قدغن کا سوچنا بھی نہایت بدنصیبی کی بات ہے۔ گزارش ہے کہ آج کے برصغیر پاک و ہند میں اگر کوئی فرد اپنے مسلمان ہونے کی تہذیبی معنویت کی بازیافت کرنا چاہتا ہے تو یہ کام مولانا آزاد کو زیر بحث لائے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ برصغیر میں ملت اسلامی اور تہذیب اسلامی کا کوئی تصور مولانا آزاد کی فکر کو رد کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ذہن و دل اگر کرودھ سے بھرے ہوں تو کوئی علمی گفتگو نہیں ہو سکتی اور اگر میرا دل اس سے آلودہ ہو تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوں۔ مولانا آزاد مسلم معاشرے اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں اور ان پر گفتگو ایک تہذیبی ضرورت کے طور پر میرا اندازہ ہے کہ جاری رہے گی۔

