Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Mohtaram Ghamidi Sahib, Aik Reporting

Mohtaram Ghamidi Sahib, Aik Reporting

محترم غامدی صاحب، ایک رپورٹنگ

محترم غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے بطور قاری اور سامع ربط تقریباً مستقل رہتا ہے۔ محترم غامدی صاحب عمر کے اس حصے میں جس محنت اور دردمندی سے اپنا کام کر رہے ہیں اس پر آدمی حیران بھی ہوتا ہے اور دل سے دعا بھی نکلتی ہے۔ ان کا تحریری اور تقریری کام اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ منظم طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں بہت وسعت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے ہر کام میں جو مہارت اور ہنرمندی (professionalism) نظر آتی ہے وہ بھی ازحد قابل ستائش ہے۔

ان کے کام کا ایک اور اہم پہلو اِس کی جمالیات اور سلیقہ مندی ہے۔ ہر کام نہایت مرتب اور سلیقے سے سامنے آتا ہے اور اس کام میں جز اعتنائی (attention to detail) سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سحر آوری میں کس قدر خونِ جگر گھلا ہوگا۔ یہ صرف پیسوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہمارے اہلِ تصوف سے زیادہ کس کے پاس پیسہ ہوگا؟ وہ بیچارے محترم غامدی صاحب کے رد میں (ابھی تک) ایک فقرہ بھی بہم نہیں کر سکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس مساوات میں دماغ کے رول پر کسی کی توجہ نہیں گئی۔

ابھی میں نے وسعت کا ذکر کیا ہے۔ میں اس سے یہ مراد لے رہا ہوں کہ دینِ اسلام اور انسانی زندگی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا پہلو ایسا نہیں ہے جس پر محترم غامدی صاحب نے کلام نہ فرمایا ہو۔ اس وسعت کی وجہ سے ان کے کام کی اثراندازی میں بھی بےپناہ اضافہ ہوا ہے اور ان کے بالمقابل مکاتب فکر کی فصیلیں نہ صرف گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں بلکہ ڈھیتی ہوئی سنائی بھی دیتی ہیں اور میں ملبے تلے دبے لوگوں کی چیخوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ محترم غامدی صاحب کی شخصیت اور فکر میں دبستانِ تجدد نہ صرف اپنے عروج اور قبولیت کی منزل مراد حاصل کر چکا ہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب مذہب کا مستقبل بھی شاید یہی ہے۔

محترم غامدی صاحب کی فکر کو دبستانِ شبلی کہنے میں مجھے انشراح صدر نہیں ہے۔ اس دبستان کی فکر کا اصل تغذیہ آقائے سرسید سے آتا ہے اور آقائے سرسید کے عہد میں ان کے مقابل جو لوگ تھے وہ سب اجل گرفتہ تھے اور پھر ہم نے دیکھا کہ ان کو اجل نے آ لیا۔ آج کل ان کی تکفین چل رہی ہے اور شاید اگلا مرحلہ وہی ہوگا جو تکفین کو لازم ہے۔ اگر برصغیر کے بڑے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ عصر حاضر میں تجدد نے مذہب کو آخری سہارا دیا ہے اور مذہب کی باقی تعبیرات ایک ایک کرکے منظر سے غائب ہوتی چلی گئی ہیں۔

بہت سے اہلِ علم محترم غامدی صاحب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ گھبرائے ہوئے لوگ ہیں اور ان میں غصہ بھی بہت زیادہ ہے اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا کہ گرفت کہاں سے اور کیسے کرنی ہے۔ محترم غامدی صاحب پر تنقیدات سے، جہاں تک میں دیکھ پایا ہوں، اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ناقدین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل وجہ اختلاف کیا ہے۔ جس طریقے پر محترم غامدی صاحب کی فکر اور ان کی تعبیرات کا سامنا کیا جا رہا ہے وہ کچھ بھی مفید نہیں ہے۔ ان کے ناقدین متجدد ہیں اور نہ روایت پرست، کیونکہ محترم غامدی صاحب کی تعبیرات کو اسلاف مخالف ثابت کر دینا کوئی دلیل نہیں ہے۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اعتراضات، اختلاف اور مخالفت کی وجہ شاید معاشرے میں محترم غامدی صاحب کی عمومی پذیرائی ہے۔ اس مناقشے کی حیثیت ایک turf war سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی اور مذہب کو صرف نام کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے۔

قارئین کرام بخوبی واقف ہیں کہ میں فکرِ غامدی کا مقر و حامی نہیں ہوں۔ لیکن مسلم روحِ تہذیب پر دعوے کی جو جنگ اس وقت چل رہی ہے اور اس کا جو نقشہ مجھے نظر آتا ہے وہی عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترم غامدی صاحب کے مخالفین کے پاس غصے اور دشنام کا ذخیرہ وافر ہے، کیسہ بھی بھرا ہوا ہے لیکن کوچۂ روایت میں مندی بہت ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جس great debate کا آغاز ہوا تھا اس میں روایت پسند طبقہ مسلسل ہزیمت میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روایت کے علمی اور علمیاتی وسائل ان کی رسائی سے باہر ہیں اور زمانہ بھی ان کا دستگیر نہیں۔ مزید یہ کہ ان کے کلبۂ احزاں میں قدیم و جدید کسی تصورِ عقل کا کوئی گزر بھی نہیں۔ پھر جدید تاریخ نے جو مسلسل نتائج ظاہر کیے ہیں وہ متجددین کے حق میں ہیں۔

گزارش ہے کہ مذہبی تجدد میں کوئی روایتی یا جدید علمیاتی اور ہرمینیاتی اصول کارفرما نہیں ہوتا اور اس کے علمیاتی اور ہرمینیاتی اصول عقلی ہیں اور نہ مذہبی۔ مذہبی تجدد علمیاتی طور پر عقل کی نئی اور ناقابل دفاع تشکیل سے پیدا ہوتا ہے جس میں بنیادی مقصد مذہب اور ہم عصر دنیا میں تطبیق ہے۔ اگر فقہ کی فروعات میں کارفرما اصولِ تطبیق کو پورے دین پر پھیلا دیا جائے تو نتیجہ تجدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اصلاً مذہبی تجدد اور اس کے مخالف مکاتبِ فکرکے مابین مناقشے کی جڑیں ہماری تہذیب کے بہت ہی گہرے علمی بحران میں پیوست ہیں۔ "مذہب کی درست تعبیر کیا ہے؟" کے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ "علم کیا ہے؟" اور "ہرمینیات کیا ہے؟" ہرمینیاتی مسئلہ چونکہ زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے، اس لیے میں ایک علمیاتی مسئلہ سامنے رکھتا ہوں جس سے صورت حال کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکے گی۔

امام عالی مقام ابوحامد الغزالیؒ نے "تہافت" میں ایسے لوگوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے جو عالم کو قدیم مانتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ اور مراکش کے مسلمان فلسفی محترم طہ عبدالرحمٰن دونوں نے امام عالی مقام کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسے رد کیا ہے۔ دلیل ایک ہی ہے کہ ایمان منطق کا کوئی قضیہ نہیں ہے اس لیے منطقی موقف کے ان حاملین کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ میں امام عالی مقام کے موقف کو درست اور دوسرے موقف کو غلط سمجھتا ہوں۔ یہ دلیل تو درست ہے کہ ایمان منطق کا کوئی قضیہ نہیں ہے، لیکن ان کی دلیل صرف ٹیکنیکل ہے اور حقیقی سوال کو اڈریس نہیں کرتی۔

اصل بات یہ ہے کہ عالم کا قدیم ہونا یا نہ ہونا ایک علمی موقف ہے اور سوال یہ تھا کہ کیا کوئی علمی موقف کفر ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس پر امام عالی مقام کا موقف یہ تھا کہ کچھ علمی مواقف کفر بھی ہو سکتے ہیں، جبکہ مولانا مودودیؒ اور محترم طہ عبدالرحمن کی رائے اس کے برخلاف ہے۔ مثلاً یہ ایک جدید اور سیکولر علمی موقف ہے کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جب اس موقف کا ذکر علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ کے سامنے کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ جو آدمی یہ موقف رکھے وہ کافر ہے۔ بعینہٖ صورت حال عالم کے قدیم ہونے کے موقف کی ہے۔ جدید عہد میں بیسیوں علمی مواقف ہیں جو اسی طرح کے ہیں اور ہمارے اہل علم ان مواقف کے وجودی اور مذہبی مضمرات سے باخبر نہیں ہیں۔

اس میں نکتہ یہ ہے کہ عقلی علم/ منطقی موقف حقائق کا محاط نہیں ہو سکتا۔ عالم کی حقیقت کا علم خبر سے ہے نظر سے نہیں ہے اور عالم کے قدیم ہونے کا موقف حقائق میں سے ہے اور اس کو علمی یا منطقی کہہ کر اختیار کرنا خبر کی عین ضد ہے۔ اپنی پرانی بات کو دہراتے ہوئے عرض کروں گا کہ علم کی بحث میں علمیاتی اور وجودی موقف میں فرق کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جدید علوم میں اولیات (axioms) کے طور پر اختیار کردہ وجودی مواقف یا عقلی حاصلات کے طور پر قائم کردہ وجودی مواقف بالعموم نظر کی آڑ میں خبر کی براہ راست ضد ہوتے ہیں اور ان کو اختیار کرکے کوئی آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اب تو ہمارے حالات یہ ہیں ہمیں ربا پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا ہے اور اس طرح کے علمی مواقف میں بھلا کسے دلچسپی ہو سکتی ہے؟

مذہبی تجدد کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اصحابِ تجدد کو اپنی بات سمجھ آئے نہ آئے، ان کے مخاطبین کو خوب سمجھ آتی ہے۔ مذہبی تجدد اپنے مواقف کو common sense سے موافق رکھتا ہے، ایک ایسی کامن سینس جس کی پوری تشکیل ہم عصر ثقافتی مؤثرات کے تحت مکمل ہوتی ہے۔ ہماری علمی روایت میں کسی عقلی دلیل کا کوئی گزر نہیں کیونکہ اب فہم ہی سب سے بڑی علمی قدر بن چکی ہے اور فہم بھی وہ جو ذہن کی بجائے حس کی شرائط پر ڈھلی ہو۔ محترم غامدی صاحب کے تجدد اور دینی تعبیرات کے مسائل کو صرف اسی وقت قابل فہم بنایا جا سکتا ہے جب ان کے اصول و مبادی کو کسی ثقہ علمیاتی اور ہرمینیاتی تناظر میں زیربحث لانے کے وسائل پیدا کیے جائیں جس کا امکان ان کا ناقدین کے ہاں ابھی نظر نہیں آتا۔

واللہ اعلم بالصواب۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan