Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Modi Ji Aur Aman Ke Imkanat

Modi Ji Aur Aman Ke Imkanat

مودی جی اور امن کے امکانات

کل مودی جی کی تقریر سن کر مجھے بےحد فکرمندی لاحق ہوگئی۔ سیاسی طاقت مفادات اور نظریات کے دھرے پر گھومتی ہے۔ نفرت اور حماقت کوئی نظریہ نہیں ہے اور کوئی سیاسی رہنما کبھی معروض سے منقطع نہیں ہوتا۔ لیکن تاریخ کے ایک اہم لمحے میں بھارت جیسا اتنا بڑا ملک جو پوری ایک تہذیب کی نمائندگی بھی کرتا ہے ایک حد درجہ چھوٹے پن میں سامنے آیا ہے۔

موجودہ بحران میں مودی جی کے بھارت نے بہت کچھ گنوایا ہے۔ بھارت اب ناوابستہ تحریک کی آواز نہیں ہے، یہ عالمی جنوب کی آواز نہیں ہے، یہ نہرو کے بھارت کی طرح دنیا کے مستعمَر اور کمزور لوگوں کی آواز نہیں ہے، یہانتک کہ بھارت اب ہندو مت کی آواز بھی نہیں رہا۔ بین الاقوامی سفارت میں بھی صدر ٹرمپ کے سامنے مودی جی اور بھارت کا چھوٹا پن ظاہر ہوا ہے اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون، دو طرفیت، سے دستبردار ہونا پڑا ہے۔

جنگ میں بھی بھارت کی طاقت کا بھرم باقی نہیں رہا۔ تاریخ کے ایسے لمحے میں جب دنیا کے ممالک مغرب کے استعماری غلبے سے نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں اور مغرب کی استعماری طاقتوں کی عالمی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے، بھارت نہایت ذلت آمیز طریقے پر مغربی غلبے اور ڈوبتے سرمائے کے آلۂ کار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بھارت دنیا کے سامنے اپنی حیثیت کو بڑھانا تو کجا، اس کی کہتری پر راضی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

بھارتی میڈیا اور مودی جی کی تقریر سے بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ بھارت دیش اب کسی بڑے تصور یا عمل کا نمائندہ نہیں رہا۔ نفرت اب ان کی راج نیتی اور تہذیب کا بنیادی تصور بن چکا ہے، مذہب اور جاتی صرف نفرت کے آلۂ کار ہیں۔ اس تقریر سے مجھے ایک بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ اب برصغیر مستقل اور مسلسل جنگ کے حالات میں داخل ہوگیا ہے، ایسے حالات جن میں امن اور جنگ کا کوئی انسانی، سیاسی اور تہذیبی معنی باقی نہیں رہا۔

راج نیتی کی بنیاد بننے والی نفرت ایک ایسے عمل کو جنم دیتی ہے جو نفرت کرنے والے اور اس کا نشانہ بننے والے کے لیے یکساں ہلاکت انگیز ہوتا ہے۔ مسلم دشمنی اور نفرت نے بھاجپا کے جس سیاسی عمل کو جنم دیا تھا اس کا ناگزیر انجام پاکستان کے خلاف ظاہر ہونا تھا اور جو بارہا ہوا۔ اس میں ایک بڑا مسئلہ ہے کہ بھاجپا پاکستان کو مٹا سکتا ہے اور نہ ہرا سکتا ہے۔ لیکن اس نفرت نے کہیں نہ کہیں تو کھپنا ہے۔

نفرت کی سیاسی حرکیات بہت خطرناک ہوتی ہے اور ابلیسی (diablical) رخ اختیار کرتے دیر نہیں لگاتی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے سیاسی نفرت کا شجر اب پورے بھارت کو اپنے سائے میں لے چکا ہے۔ نفرت اگر طاقت اور معاشرت کی بنیاد بن جائے تو نسل کشی بس تھوڑی دوری پر ہوتی ہے۔ بھارت کی مسلم نفرت چونکہ پاکستان سے جڑے ہوئے اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکتی اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ آنے والے دن بھارتی مسلمانوں کے لیے بہت کڑے ہیں۔ بھارت کے مسلم رہنما جیسے بڑھ چڑھ کر پاکستان کے خلاف بول رہے تھے اس کے پیچھے بنیادی طور پر یہی نفسیات اور اندیشے کام کر رہے ہیں۔

تزویراتی (tactical) اور حربی (strategic) حکمت عملیاں اور افکار جو بھی کہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ ایک حربی ہم چشمی (stategic parity) حاصل کر چکا ہے اور اسے صرف بلیک میل قرار دینا حد درجے کی حماقت ہے۔ ایٹمی جمع تفریق اب پاک بھارت تعلقات کی نس نس میں شامل ہے۔ نفرت کی آنچ نے بھارت کے سیاسی دماغ کو سرسام میں مبتلا کر دیا ہے اور بھارت کے اندر سے کسی sane تصور یا عمل کا امکان بہت گھٹ گیا ہے۔ پاکستان تو چلو ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہے، لیکن صدر ٹرمپ کے ایک ٹویٹ نے جس طرح برصغیر میں جنگ بندی قائم کی اس نے بھارت کی اوقات بھی مکمل طور پر ظاہر کر دی ہے۔

صدر ٹرمپ کے بعد کے ٹویٹوں نے تو بھارت کے پلے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ مودی جی کی تقریر داخلی اور خارجی طور پر بگڑتی ہوئی صورت حال کو مزید خراب کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کے معاشرے کا اس صورت حال سے دوچار ہونا علاقائی اور عالمی مضمرات رکھتا ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ ہوگا کہ مغرب چین کے خلاف اپنی تجارتی جنگ میں جس طرح بھارت کو بھرتی کر رہا تھا، اس کی معاشی توقعات پوری نہیں ہو سکیں گی۔ موجودہ جنگ سے چین اور پاکستان کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ علاقائی عدم استحکام کے ذریعے بھارت کو مغرب کی پروڈکشن فیکٹری بننے میں ٹھوس رکاوٹیں پیدا کر سکیں۔

اس بار بھارت کے صرف طیارے نہیں گرے، بھارت خود گرا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali