Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Mazhab Ki Salahkari, Tajaddod Aur Afghan Taliban

Mazhab Ki Salahkari, Tajaddod Aur Afghan Taliban

مذہب کی سلاح کاری، تجدد اور افغان طالبان

جناب عمار خان ناصر نے 27 ستمبر سنہ 2025ء کی اپنی ایک تحریر میں جناب حسن الیاس کی اقوام متحدہ میں گفتگو کو ایک "درست پیش رفت" قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اصل سوال "جدید مسلم معاشروں میں سیاسی طاقت اور مذہب کے باہمی تعلق یا باہمی آویزش" کا ہے اور اس سوال پر "مذہبی سیاست، جہادی اسلام اور تھیاکریسی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور ایک ہی منزل کے مسافر ہیں" اور یہ گروہ اپنے واحد مقصد یعنی اقتدار پر قبضے کے بعد "سیاسی طاقت کو اپنے فہم کے مطابق "نفاذ شریعت" کے لیے بروئے کار لانا شروع کر دیتے ہیں"۔

گزارش ہے کہ جناب عمار خان ناصر نے اس گفتگو کو جواز دینے کے لیے افغان طالبان اور برصغیر کے سیاسی ملاؤں میں نہایت بنیادی فرق کو نظرانداز کر دیا ہے جس کی وجہ سے جناب حسن الیاس کے موقف کو "درست پیش رفت" قرار دینا ممکن ہو سکا ہے۔ پاک و ہند کے سیاسی ملا ایک اقتصاری ملائیت کے مطلق حامل ہونے کی حیثیت سے اقتدار کے دعویدار ہیں جبکہ افغان طالبان نے تاریخ اور سیاسی طاقت کے معروف معیارات پر امریکی استعمار کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔

پاک و ہند میں استعمار کے قائم کردہ سیاسی اور معاشی نظام میں حصول اقتدار کے معروف اسالیب پر عوام نے سیاسی ملا کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے اور وہ اس نظام میں غالب طاقت کے ساتھ ایک عوام دشمن collaborator کی حیثیت سے تعاملات کرتا چلا آیا ہے اور اس عوام دشمنی اور اعانتِ جبر کے لے وہ مذہب سے جواز سازی کا عادی ہے۔ دوسری طرف، افغان طالبان عوامی تائید کے بغیر اتنی طویل جنگ لڑ ہی نہیں سکتے تھے۔ اگر مذہب کی weaponization اور instrumentalization کی کوئی معنویت ہے تو اسے افغان طالبان کی بجائے پاک و ہند کے سیاسی ملاؤں کی تزویرات میں ڈھونڈھنے کی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے مذہب کو عوام دشمنی کا منشور اور بازیچۂ اقتدار بنا دیا ہے۔ افغان طالبان اپنے ملک میں سیاست شرعیہ کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ پاک و ہند کے سیاسی ملا تحریک وہابیت سے متوارث سیاستِ عقیدہ کے علمبردار ہیں۔

افغان طالبان کو مذہب کی weaponization کا الزام دینا علم اور اخلاقیات دونوں کی نفی ہے۔ سیاسی طاقت پر افغان طالبان کا قبضہ صرف de facto نہیں ہے بلکہ de jure بھی ہے۔ لہٰذا، جناب حسن الیاس نے اپنے مغربی سرپرستوں کے ایجنڈے پر خود مذہب کی weaponization کے ذریعے افغان طالبان کو delegitimize کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی جو الزام وہ طالبان پر لگا رہے ہیں، دراصل خود اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک سیاسی فورم ہے اور اس پر خود ان کی پوزیشن weaponization of religion کی نمائندہ ہے، یعنی وہ اپنی مذہبی حیثیت میں ایک جائز اور خود مختار حکومت کے خلاف آلۂ کار بن کر امریکی استعماری ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جناب عمار خان ناصر کے پاس چٹوں بٹوں کی جو بھری ہوئی تھیلی ہے اس میں افغان طالبان کو شامل کرنا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس کا سارا مال خانہ زاد ہے۔

اس ساری بحث میں مذہب کی سلاح کاری (weaponization) ایک تصور اور سیاسی حکمت عملی کے طور پر سامنے لائی گئی ہے، اس لیے اس کو دیکھنا اولاً ضروری ہے۔ مذہب کی سلاح کاری کا عمل، تصور اور طاقت کے تعامل پر واقع ہوتا ہے اور اسی انٹر فیس سے متعلق ہے۔ ہر قائم طاقت کسی نہ کسی اساسی تشکیلی تصور کی حامل ہوتی ہے اور یہ تصور اس طاقت کی ہیئت اور مقاصد کو متعین کرتا ہے۔ عصر حاضر میں سیاسی طاقت کی تشکیل جدید ریاست میں ہوئی ہے اور اس کا بنیادی ترین تصور ساورنٹی ہے۔ لبرلزم، قدامت پسندی، کمیونزم، سوشلزم اور دیگر تمام سیاسی فلسفوں میں باہم بہت اختلافات ہیں لیکن ان نظریات کی سطح وجود ایک ہے اور وہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں ساورنٹی کا سیاسی تصور اساسی اور مشترک ہے۔ ساورنٹی کے خمیر سے تشکیل پانے والی جدید ریاست بہت زیادہ مانعاتی (exclusivist) ہے اور کسی بھی دوسرے ایسے تصور کو قبول نہیں کر سکتی جو اس تصور کا مخالف یا اس کا متضاد ہو۔

اسلام، دیگر مذاہب کی طرح، اس تصور کی ضد ہے اور ساورنٹی کے حامل تمام جدید سیاسی نظریات جدید ریاست اور مذہب کے مکمل انقطاع پر زور دیتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں مذہب کے کسی بھی رول کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسے فرد کا نجی معاملہ سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ محترم غامدی صاحب کا بھی یہی موقف ہے۔ جدید طاقت کی طرف سے مذہب کی سلاح کاری کی طرف یہ اول پیش رفت ہے۔ محترم غامدی صاحب ہر سطح پر جدیدیت اور جدید ریاست کے قدم بہ قدم ہیں، بھلے یہ ریاست علاقائی ہو یا عالمی۔ اب محترم غامدی صاحب کے افکار عالمی استعماری ریاست کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں اور وہ مذہب کی سلاح کاری کے منصوبے میں عملی طور پر شامل ہو گئے ہیں۔

مذہب کی سلاح کاری دراصل ایک عملی مظہر ہے اور یہ اس وقت تک بروئے کار نہیں آ سکتا جب تک اس کی پشت پر فکری تشکیلات موجود نہ ہوں۔ سادہ لفظوں میں، مذہب کی جدید فکری تعبیرات پر جدیدیت کے مکمل غلبے کے بغیر اسے عملی منصوبوں میں بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔ روایت کے فکری انقطاع کے بعد، جدید تاریخی اور ثقافتی مؤثرات کو مذہبی تعبیرات پر تقریباً مکمل غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس لیے مذہب کی سلاح کاری کو جدید مذہبی تعبیرات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ یہ عملی مظہر ان تعبیرات سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔

محولہ بالا تناظر میں، مذہب کی سلاح کاری میں ایک بڑا مسئلہ مذہب کی جدید تعبیرات کا ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ سیاسی طاقت اور فکر کی ہر ہیئت مذہب کی تعبیر کو کھسوٹنے (appropriate) کا ایک مکمل علمی ایجنڈا رکھتی ہے اور ایک ایسی تعبیر کے لیے کوشاں ہوتی ہے جو اس کے سیاسی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہو۔ اس میں بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی تعبیر جدیدیت کے پیدا کردہ تاریخی مؤثرات کے تحت سامنے آ رہی ہے یا اس میں کوئی ایجنسی اور خود مختاری باقی رہ گئی ہے؟

پاک و ہند میں مسلم معاشرے کے اندر، استعماری جدیدیت کے پیدا کردہ طاقتور ترین مؤثرات تحریک وہابیت اور تجدد ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل سے مذہب کی کوئی تعبیر افکارِ وہابیت اور تجدد سے خالی نہیں ہے اور روایتی تعبیر اپنی تکمیلی حالت میں کہیں بھی موجود نہیں ہے کیونکہ روایتی توحید اور سیاست شرعیہ کا کوئی taker اب مسلم معاشروں میں موجود نہیں ہے۔ تجدد اور وہابیت غالب طاقت کے زیر اثر اور بعض اوقات اس کی ترجیحات پر دین کی تعبیرات سامنے لاتے ہیں۔ تحریک وہابیت نے روایتی سیاست شرعیہ کے تصور کا ہی خاتمہ کر دیا اور پاک و ہند میں عقیدہ اساس سیاسی فکر اور عمل کو متعارف کرایا۔

فی زمانہ پاک و ہند میں مذہبی سیاست کے تمام تر تصورات بلا استثنا صرف انھی دو تحریکوں یعنی تحریک وہابیت اور تجدد سے حاصل ہوئے ہیں۔ مذہب کی سلاح کاری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خود مختار ایجنسی کا خاتمہ ہو کر اس میں ایک آلیت (instrumentality) نہ پیدا ہو جائے۔ تحریک وہابیت اور تجدد اس آلیت کے دو بڑے مظاہر ہیں۔ اگر محترم غامدی صاحب کی فکر میں آلیت نہ ہوتی تو اس کا عالمی استعماری ایجنڈے میں بھرتی ہونا ممکن نہیں تھا۔ عالمی استعمار کو متجددانہ فکر اور داعشانہ وہابیت کے انتہا پسندانہ اعمال یکساں سازگار ہیں۔ تجدد اور وہابیت مسلم معاشرے میں جدیدیت کی دروں کاری کے باہم متضاد مظاہر ہیں۔

روایتی تناظر میں، مذہب کی سلاح کاری کا بنیادی ترین معنی یہ ہے کہ مذہب تاریخی مؤثرات سے مکمل طور پر مغلوب ہو کر صرف دنیا کی چیز بن کر رہ جائے، یہ مکمل طور پر historicist ہو جائے، معاد کے تصورات اس سے کھرچ کر نکال دیے جائیں، یہ ہر طرح کی غالب تاریخی قوتوں کا آلۂ کار بن جائے اور عدل کی بجائے یہ فتنہ سے منسوب ہو جائے۔ غالب طاقت کے نظام میں مذہب کی سلاح کاری کا سیاسی مظہر صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب یہ علم، اخلاقیات اور انسانی زندگی کی ہر سطح پر سلاح کاری کے پروسث سے گزر چکا ہو۔ مذہب کی سیاسی سلاح کاری کا عمل ایک منتہائی شکل ہے اور اس کا آغاز اخلاقی اور سماجی سطح پر ہوتا ہے۔ مذہب کی سلاح کاری کا ایک پہلو اس کو جدید ریاست اور غالب سیاسی قوت کا مقوم بنانے کی بجائے عین اسی طاقت کا قانون بنا دینا ہے۔ اس پہلو سے خانہ زاد مذہبی سیاسی جماعتوں کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مذہب کی سلاح کاری میں تعبیر دنیا بھی غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ دین سے محبت رکھنے والا مسلمان اگر ان تاریخی قوتوں کا شعور رکھتا ہو جو مذہب کی سلاح کاری کو ممکن بناتی ہیں تو وہ نہ خود ان کا آلۂ کار بن سکتا ہے اور نہ اپنے مذہب کی سیاسی آلیت میں شریک ہو سکتا ہے۔ طالبان کا مسئلہ مذہب کی سلاح کاری نہیں ہے۔ افغان طالبان بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ دین مستقل اور غیرمبدل ہے۔ لیکن ان کا جدید دنیا اور تاریخ کا فہم بہت primitive ہے۔ مسلم معاشرت کے اساسی اجزا سے کوئی مسلمان اختلاف نہیں کر سکتا، لیکن عصر حاضر میں اس اخلاقی معاشرت کے مقوم ذرائع قطعی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ مسلم معاشرت کے قیام کے لیے طاقتی/قانونی ذرائع استعمال کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔

معاش، ہر معاشرت کی طبعی اساس ہے اور معاش کی فنا پر کوئی بھی دینی یا غیر دینی معاشرت قائم نہیں ہو سکتی۔ دینی معاشرت کے فروغ میں تعلیم، وعظ اور تواصی کو بروئے کار لانا ضروری ہوتا ہے لیکن اگر معاشرے کی طبعی اساس یعنی معاش ہی باقی نہ رہے تو تعلیم، وعظ اور تواصی کی طرح قانون بھی نہ صرف بے اثر ہو جاتا ہے بلکہ رہی سہی اخلاقی معاشرت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ افغان طالبان نے سیاست شرعیہ میں شامل یہ بنیادی بصیرت بھی فراموش کر دی ہے کہ عدل کا معاملہ ایسا ہے کہ یہ کوئی بھی فکری چولا پہن کر آ جائے تو ہر انسانی معاشرہ اسے فوراً قبول کر لیتا ہے اور جبر کا مسئلہ ایسا ہے کہ یہ کسی بھی نظریے یا مذہب کا نقاب اوڑھ کے آ جائے انسانی معاشرہ اسے مسترد کر دیتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور ایران اسی مخمصے میں ہیں اور افغان طالبان بھی اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari