Kya Ma Baad Ghaza Muslim Siasi Fikr Ka Koi Imkaan Hai
کیا مابعد غزہ مسلم سیاسی فکر کا کوئی امکان ہے

عالمی استعمار کی آمد کے بعد پیدا ہونے والی پوری مسلم فکر، خاص طور پر مسلم سیاسی فکر، غزہ میں دفن ہوگئی ہے اور اس کا نوحہ 17 نومبر 2025ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2803 میں بھی لکھ دیا گیا ہے تاکہ سند رہے۔ ان صدیوں کی مسلم سیاسی فکر استعماری ماڑیوں کی غلام گردشوں میں احیا اور انقلاب کے چیتھڑوں میں محو خواب رہی ہے اور اس فکر کی عوام دشمنی اور جمہوریت کشی کابوس بن کر اسے ہربڑاتی رہی ہے۔ غزہ اس لیے ہوا کہ اس فکرنے دنیا میں قائم طاقت اور سرمائے کے نظام کی حقیقت کو ہم سے نہ صرف اوجھل رکھا بلکہ اس کے روبرو کھڑے ہونے کے تمام امکانات کا بھی خاتمہ کر دیا۔
سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فکرنے ہمارے دین کی سیاسی تعلیمات کو بھی بے وقعت کر دیا۔ یہی وہ مسلم سیاسی فکر ہے جس نے غالب طاقت اور سرمائے سے ساز باز کے افکار و اسالیب کو مذہبی تقدس کا درجہ عطا کیا اور عوام دشمنی کو انقلاب اور احیا جیسے خواب آور رومانوی نام عطا کیے۔ اس وقت امتِ مسلمہ جس ویرانے میں ہے وہاں کوئی فکر باقی ہے نہ کوئی تہذیب اور تاریخ امتِ مسلمہ کی مطلق غلامی اور بے طاقتی کو آشکار کر چکی ہے۔ وہ زمانہ بھی گزر گیا جب "مغرب" سے سیکھ، بھیک میں آتی تھی۔ اب تو ملتِ اسلامیہ کی زندگی خود مغرب کی بھیک بن چکی ہے۔ مابعد غزہ بھی اگر کوئی نام نہاد "مسلم سیاسی فکر" کی بات کرے تو اس کو داد ہی دینی پڑے گی۔
مابعد غزہ امتِ مسلمہ استعماری غلامی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔ یہ صورت حال اتنی بدیہی ہے کہ اس کے لیے آنکھیں پوری کھلی ہونا بھی ضروری نہیں، صرف نیم وا ہی کافی ہیں۔ ہماری تمام جدید مذہبی تعبیرات، تمام کلامی بحثیں، تمام فکری مکالمے، تمام فلسفیانہ ڈینگیں، تمام نظریاتی آسن اب غتربود ہو چکے۔ بقول ابن عربیؒ ہمارا سارا علم اب حجاب ہی ہے اور بقول اقبالؒ ہمارے قلب و نظر کی ناپاکی دنیا کو دیکھنے میں سدِ نگاہ ہے۔ غزہ پر دنیا میں دو طرح کے رد عمل سامنے آئے۔ ایک ردِ عمل انسانی ہمدردی پر مبنی تھا اور دوسرے کی نوعیت سیاسی تھی اور یہ دونوں طرح کے ردعمل مسلم دنیا کے باہر سے آئے ہیں۔
یورپی، امریکی اور دیگر کئی معاشروں میں اہل غزہ کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوئے اور بہت سے افراد کی بے مثل قربانیوں کی خبریں بھی دنیا کے سامنے آئیں۔ سیاسی ردِ عمل یا مستجاب (response) میں کولمبیا، بولیویا اور جنوبی افریقہ نے ایک نئی مثال قائم کی ہے اور دنیا میں ظلم اور جبر کی قوتوں کا جس طرح سامنا کیا، اس نے انسانیت کی سطح پر امید کو زندہ رکھا ہے۔ مصر میں مرسی اور اخوان المسلمون کے سوا، ملت اسلامیہ کی سطح پر نام نہاد "مسلم سیاسی فکر" اب تک ظلم اور جبر کی قوتوں کے ساتھ سازباز میں زندہ رہی ہے۔ مسلم عوام کی آرزوؤں پر شب خون لگانے کے لیے اس سے بہتر کوئی فکر اب تک سامنے نہیں آئی۔ ہمارے پاس اگر کوئی مسلم پولیٹیکل تھیوری ہوتی تو آج ہم غزہ کی سیاسی معنویت پر گفتگو کرنے کے بھی قابل ہوتے۔
دنیا کے حالات اصلاً سیاسی اور معاشی صورت حال ہی کا نام ہے اور ان حالات پر ہمارے ہاں زیادہ تر گفتگو مذہبی ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے حالات بھی مفہوم نہ ہو پائے اور مذہب کو بھی تشبیہی علم بنا دیا گیا اور مذہبی فرقہ واریت پر سیاسی رنگ گہرا ہوتا چلا گیا۔ مذہبی ہدایت انسان سے براہ راست مخاطب ہے اور وہ دنیا کو سمجھنے کا کوئی سماجی، سیاسی اور معاشی "علم" نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی حالات پر بالعموم چار پہلوؤں سے گفتگو ہوتی ہے: نفسیاتی، اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی/مذہبی۔ نفسیائی، اخلاقی اور نظریاتی گفتگو اس دنیا کے روبرو محض ایک حجاب کا کام کرتی ہے اور تاریخ کی قوتوں کو سمجھنے میں معاون نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دنیا کو سمجھنے کے لیے ایک مکالمے کے امکان کو تلاش کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے دنیا کو سمجھنے کے دنیا بھر میں معروف اسالیب کو اختیار کیا جائے اور گفتگو کو صرف سیاسی اور معاشی دائرے تک محدود رکھا جائے۔ ایسی گفتگو صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر عقلیت کو بنائے مکالمہ بنایا جائے اور نظریاتی پہلوؤں کو چندے مؤخر رکھا جائے۔ مابعد غزہ ہمیں ایک ایسی پولیٹیکل تھیوری کی ضرورت ہے جو ہمیں اس لہو رنگ دنیا کو اپنی حسرتوں اور خوش فہمیوں سے آگے دیکھنے کا حوصلہ عطا کر سکے۔ لازم ہے کہ جدید مسلم پولیٹیکل تھیوری دنیا کو فراست کی نظر سے دیکھنے کے قابل ہو اور اس تعبیری جبر کی نشاندہی کر سکے جس نے ہماری ہر مذہبی سیاسی تھیوری کو طاقت اور سرمائے کے آلۂ کار سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ مابعد غزہ مسلم شعور صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے اگر وہ ان تمام نظریات کو مسترد کر دے جو گزشتہ تین سو سالوں میں پروان چڑھے ہیں۔ غزہ کو ملی شعور کا مدفن بننے سے صرف یہی چیز ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے۔
مسلم سیاسی اور تہذیبی شعور کی اول ذمہ داری یہ ہے وہ لمحۂ حال میں غزہ کی معنویت پر کلام کی کوشش کرے۔ غزہ جیسے واقعات کسی تہذیبی اور سیاسی خلا میں واقع نہیں ہوتے، بلکہ وہ علاقائی اور عالمی طاقت کی حرکیات کا اظہار ہوتے ہیں۔ غزہ کو ایک واقعہ کی بجائے مشرق وسطیٰ میں جاری تاریخی اور سیاسی حرکیات کے تسلسل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جو جنگ عظیم اول کے بعد فعال ہوئی تھی۔ اس حرکیات کے بڑے پہلو اسرائیل کا قیام اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی ہیں۔ احباب جو اس حرکیات سے واقف ہیں، ان پر یہ واضح ہے کہ غزہ کے واقعات کوئی تتمہ نہیں ہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہے اور اس امر کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ جلد یا ذرا بدیر پورا مشرق وسطیٰ غزہ بننے والا ہے۔
جب صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف ٹیرف جنگ کا آغاز کیا تھا، اس وقت decoupling کی باتیں بھی عام تھیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ چین کی ترقی عالمی معاشی نظام کا حصہ بننے کے سبب ہوئی ہے۔ استعماری منصوبہ عالمی معاشی نظام کو منہدم کرنے کا ہے تاکہ اس کی تعمیر نو کرتے ہوئے چین کو اس عالمی نظام سے باہر رکھا جا سکے۔ لیکن ٹیرف جنگ میں استعمار کو اندازہ ہوگیا کہ وہ یہ کام حسب خواہش نہیں کر سکتا اور اب اس منصوبے کا دوسرا ایکٹ ظاہر ہو رہا ہے جو وینزویلا کے خلاف ممکنہ امریکی جنگی کاروائیوں سے صاف نظر آ رہا ہے۔ استعمار وینزویلا پر قبضہ کرکے اس کے ذخائز تیل کو اپنے لیے محفوظ کرنا چاہتا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکے۔ اس کے دو فوری فائدے ہیں۔ ایک اسرائیل کو ایرانی خطرے سے محفوظ بنانا اور دوسرے چین کی توانائی ضروریات پر ضرب کاری لگا کر اس کی طاقت کو کچلنے کی کوشش کرنا۔

