Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Janab Khursheed Nadeem Aur Tajaddud o Riwayat Ka Tanaza

Janab Khursheed Nadeem Aur Tajaddud o Riwayat Ka Tanaza

جناب خورشید ندیم اور تجدد و روایت کا تنازع

روزنامہ دنیا میں 11 اگست سنہ 2025ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم "نیا علمی، مقدمہ" میں جناب خورشید ندیم نے سہ ماہی "جی" اور فیس بک پر میری چند ایک تحریروں کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے نہایت دیانت داری سے زیر بحث علمی صورت حال کا خلاصہ پیش کیا ہے اور علمی مکالمے کے امکانات پر بھی بات کی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریر میں حالیہ صدیوں کے اساطین علم کا ذکر کیا ہے جو تجدد اور روایت یا درست تعبیر دین کے مباحث میں براہِ راست اور ہراول کے طور پر شریک رہے ہیں۔ خوش فہمی اور غلط فہمی سے بچتے ہوئے فوری طور پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میں کسی شمار و قطار میں نہیں، اس لیے کسی بھی فرقے یا مسلک کی مذہبی تعبیرات پر کوئی ججمنٹ دینا میرے کام سے خارج ہے۔ یہ علما کا کام ہے، وہ جانیں اور تعبیرات جانیں، میں اس میں نہیں ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کم از کم دو صدیوں میں جو بھی مذہبی تعبیرات سامنے آئی ہیں، ان میں کسی نہ کسی اصول یا نام نہاد اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اصول کی بحث غیر مذہبی ہے، خالص علمی اور فکری ہے اور مطلوب ضروری وسائل کے ساتھ اس میں ہر کوئی شریک ہو سکتا ہے۔ اگر اس اصول/اصولوں کو توڑ دیا جائے تو وہ مذہبی تعبیر جو اس اصول/اصولوں پر قرار پکڑے ہوئے ہے منہدم ہو جاتی ہے۔ میری گزارش صرف یہ ہے کہ بحث کو صرف علمی اور فکری رکھا جائے۔ اس میں یہ رعایت رکھنا اشد ضروری ہے کہ عصر حاضر میں انسانی شعور کے احوال، عقل کا تصور، شرائط استدلال اور تشکیلاتِ علم کے مناہج بھی شامل بحث رہنے چاہئیں ورنہ ایسی بحث قطعی مندرس اور لاحاصل ہوگی۔ میری کوشش ہوگی کہ آئندہ کسی وقت گزشتہ صدیوں میں زیرِ نزاع علمی موضوعات کا مختصراً ذکر بھی کر دیا جائے۔

میں جناب خورشید ندیم کے ایک موقف سے بالکل متفق نہیں ہوں اور وہ یہ ہے: "ان مباحث میں اصطلاحوں کا استعمال غیر ضروری ہے۔ یہ سب بے مصرف ہیں۔ علم کی دنیا میں یہ اب متروک ہو چکیں کہ ان کے مصداق کا تعین موضوعی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بنیادی مقدمہ اور دلائل سامنے رہیں۔ فیصلہ لوگوں پرچھوڑ دیا جائے"۔

ان مباحث کی دو سطحیں ممکن ہیں: ایک صحافتی اور دوسرے علمی۔ اول الذکر میں دنیاوی وسائل کی اہمیت ہے اور دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ مؤخر الذکر مکالمہ دلیل کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے اور ہر دلیل کسی نہ کسی متفق طرز استدلال سے لائی جاتی ہے۔ استدلال بغیر اصطلاح کے ممکن نہیں ہے۔ اگر جناب خورشید ندیم اس بحث کو صحافتی رکھنا چاہتے ہیں تو یہ بے سود ہے اور ہر وقت کی دھینگا مشتی ہے۔ علمی بحث اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب یہ علمی شرائط پر آگے بڑھائی جائے۔

اصول کی کسی بھی بحث کو اصطلاح کے بغیر شروع کرنا محض خوش فہمی ہے۔ اگر فیصلہ "لوگوں پر چھوڑنا" ہے تو یہ بحث صحافتی ہوگی اور اگر اہلِ علم کو بھی متوجہ کرنا ہے تو یہ اصول کی شرائط پر ہی سامنے لائی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر لوگوں پر ہی چھوڑنے کا مسئلہ ہے تو پھر بحث پر پابندی ہونی چاہیے اور رائے شماری کو اختیار کرنا چاہیے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ موقف ابلاغ کی ضروریات کو حتمی خیال کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ ابلاغ، طاقت اور سرمائے کی بنیادی ترجیح ہے اور علم و فکر کی کوئی شرط نہیں ہے۔

اگر ابلاغ ہی بنیادی علمیاتی شرط ہوتی تو دنیا میں کوئی علمی بات ہی نہ کہی جا سکتی کیونکہ ابلاغ کو پیش نہاد (foreground) کرنا علم کے امکان کو مسدود کرنا ہے۔ ابلاغ کے لیے دستیاب فنی وسائل کے ذریعے پے بہ پے باتیں کرنا ضروری ہوتا ہے، دماغ اور دلیل اس کے لیے غیر ضروری ہوتے ہیں۔ جناب خورشید ندیم کا یہ دعویٰ نہایت حیرت انگیز ہے کہ اصطلاحات اب علم کی دنیا میں بھی متروک ہو چکی ہیں۔ بلا دلیل و اصطلاح لکھی گئی کسی علمی کتاب کا ذکر کرنا ہم سب کے لیے بہت مفید ہوگا۔

و اللہ اعلم بالصواب

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari