Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Jadeed Siyasi Aur Muashi Nizam Ki Ilmi Toseet (1)

Jadeed Siyasi Aur Muashi Nizam Ki Ilmi Toseet (1)

جدید سیاسی اور معاشی نظام کی علمی توسیط(1)

ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری صاحب اپنی نو اپریل کی ایک پوسٹ میں تحریر فرماتے ہیں: "جدید ریاست کے ناقدین فیس بک پر کچھ عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ یہ ایک نئی رو ہے اور اس فکری تحریک کی زیادہ تر بنیاد محمد دین جوہر صاحب کا کام ہے۔ کئی نکات ہیں اور درست بھی معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک بنیادی بات سوچتا ہوں کہ جدید ریاست کے ان ناقدین کے پاس تقابل و تنقید کے لیے پیمانہ کیا ہوتا ہے؟ زیادہ کامیاب جدید فلاحی ریاستیں جیسے ناروے اور ڈنمارک وغیرہ؟ کوئی تاریخی قدیم ریاست جیسے اورنگزیب کا ہندوستان؟ یا کوئی ایسی آئیڈیل ریاست جو ابھی تک وجود میں نہیں آ سکی؟ اس تنقید کے بامعنی ہونے کے لیے یہ طے کرنا میرا خیال ہے کہ بہت ضروری ہے۔ "

میری رائے میں ڈاکٹر صاحب کا اٹھایا ہوا یہ سوال بہت اہم ہے کہ جدید ریاست پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے ناقدین کے پاس "تقابل و تنقید کے لیے پیمانہ کیا ہوتا ہے؟" آج کی دنیا میں طاقت اور خوشحالی، ترقی اور آزادی کا براہ راست تعلق جدید ریاست اور معاشی پیداواری عمل سے ہے اور یہ دونوں توام ہیں۔ برصغیر میں تجدد کا آغاز جن بڑے مباحث سے ہوا ان میں جہاد کا مسئلہ شامل تھا اور صاف ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ جدید ریاست اور جدید سیاسی ساختوں سے براہِ راست متعلق ہے۔ مسلم دنیا میں بڑی بڑی خرابیاں بھی اسی لیے پیدا ہوئی اور آج تک چلی آتی ہیں کہ جدید سیاست اور جدید معیشت کو ہم کسی بھی دینی یا غیر دینی تناظر میں سمجھنے کے وسائل ہی پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ نام نہاد مفکرینِ اسلام نے ان موضوعات پر جو داد سخن دے رکھی ہے اس سے علوم اور حالات کا الجھاؤ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ان پر مذہبی اور علمی گفتگو کے امکانات ہی ختم ہوتے جاتے ہیں۔

سوال میں بنیادی نکتہ جدید ریاست پر گفتگو کے امکان کا ہے۔ یعنی جدید ریاست پر گفتگو کا امکان "تقابل اور تنقید" کے تناظر میں ممکن ہے اور تقابل اور تنقید کے لیے دستیاب وسائل تین ہیں: جدید فلاحی ریاستیں، (مثلاً) اورنگ زیب عالمگیر کے تحت تاریخی قدیم ریاست یا غیرموجود آئیڈیل ریاست۔ اگر یہ موقف اختیار کیا جائے کہ جدید ریاست اور ماقبل جدیدیت طاقت کی ساختوں کے مابین تقابل اور تنقید کی کوئی بنیادیں موجود ہی نہیں ہیں تو نہ صرف یہ کہ گفتگو کا امکان باقی نہیں رہتا بلکہ اس کی legetimacy بھی ختم ہو جاتی ہے۔

علمی لحاظ سے یہ ایک پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہے کیونکہ یہ اپروچ جدید تاریخ اور معاشرے کو gloss over تو کر دیتی ہے لیکن اس کے ادراک اور اظہار کے در وا نہیں کر پاتی۔ جدید ریاست بطور علمی موضوع سے ملتی جلتی صورت حال استعمار کی ہے۔ استعمار ہمارا براہِ راست تاریخی تجربہ رہا ہے اور ایک بدلی ہوئی حالت میں اب بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم روایتی یا جدید علم کے کسی شعبے میں رہتے ہوئے اس تجربے کی علمی اور نظری توسیط کر پائے ہیں یا نہیں؟ میرے نزدیک اس کا جواب نہیں میں ہے اور دو ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ استعمار محکوموں کے انفس و آفاق کا صورت گر ہے

لیکن ہمارے علوم میں اس پر کوئی کلام موجود نہیں ہے، نعرے یقیناً موجود ہیں۔ یہی صورت حال جدید معیشت کی ہے، جدید بینکاری کی ہے، جدید تعلیم کی ہے۔ کسی بھی شعبے میں ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے اور ہم جو کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ مانگے تانگے کا ہے اور اسی کو اسلامی کہہ کر گزارہ چلاتے ہیں۔ نام نہاد مفکرینِ اسلام کی دنانیت اور پست فکری کی وجہ سے صورت حال میں بہتری کا کوئی امکان بھی شاید اب نہیں رہا۔ یہ مایوسی کی بات نہیں ہے، امر واقعہ ہے کیونکہ امتِ مسلمہ میں کہیں بھی کوئی ایسی گفتگو نہیں ہو رہی اور ایسا کوئی عمل سامنے نہیں آ رہا جس سے اس کے برعکس امید باندھی جا سکے۔

اس صورت حال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جدید ریاست کے بارے میں اسلامی موقف کیا ہے؟ لیکن یہ سوال نہیں اٹھانا چاہتے کہ جدیدیت کے مظہر کے طور پر جدید ریاست خود کیا ہے؟ کیونکہ اسی سوال کے جواب میں یہ معلوم ہوگا کہ جدید ریاست اور ماقبل جدیدیت سیاسی ساختوں میں کیا چیز مشترک ہے اور فرق کہاں کہاں ہیں۔ یہی طریقہ معیشت، علم، تعلیم، کلچر اور ٹکنالوجی پر گفتگو میں بھی برتا جاتا ہے۔ اس اپروچ سے ہم عصر صورت حال اور ہم عصر علوم کے بارے میں ہماری آگہی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا لیکن اسلام اور شریعت کو جدید اداروں اور علوم کے مطابق ڈھالنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔

جدید ریاست پر گفتگو صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ اسے ماضی میں موجود سیاسی طاقت کی ہیئتوں کا تسلسل یا successor نہ سمجھا جائے، جو وہ یقیناً نہیں ہے اور اسے جدیدیت کے بڑے مظہر کے طور پر دیکھا جائے۔ ہماری جدید علمی روایت میں جدید ریاست کو ماضی میں قائم سیاسی طاقت کی ہیئتوں کا تسلسل سمجھا جاتا ہے اور نام نہاد فکرِ اسلامی اسی "روایت" میں رہتے ہوئے جدید ریاست کو موضوع بناتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف جدید ریاست کے ساتھ نہیں ہے بلکہ معیشت و معاشیات، ٹکنالوجی، جدید پیداواری عمل، علم اور تعلیم، میڈیا وغیرہ پر گفتگو میں یہی صورت حال پیش آتی ہے۔

تین دہائیوں سے تعلیم، تعلیمی تصور و عمل اور جدید اسکول اور کالج میں کام کرتے ہوئے مجھے اس امر کا احساس و ادراک ہوا ہے کہ ہمارے کلچر میں جدید موضوعات پر گفتگو کے لیے کوئی space ہی سرے سے موجود نہیں ہے اور جو بھی گفتگو ہوتی ہے وہ لغوِ محض ہے کیونکہ واقعاتی تاریخی، سیاسی اور معاشی صورت حال ایک بنیادی مدرک کے طور پر ہمارے علوم میں موجود ہی نہیں ہے۔

یاد رہے کہ جدید فکرِ اسلامی کا اس حق اور ہدایت سے کوئی تعلق ہی سرے سے موجود نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ تمام تر جدید فکر اسلامی ایسی من مانی تعبیرات کا مجموعہ ہے جو جدیدیت کی شرائط پر دین سے اخذ کی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں جتنی بھی جدید مذہبی اور سیاسی فکر پائی جاتی ہے اور جس میں مولانا مودودیؒ کی سیاسی فکر اور غامدی صاحب کا مذہبی تجدد بھی شامل ہے، ان کی حیثیت بالکل وہی ہے جو مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے ردِ فزکس و نیوٹن کی ہے، یا جو حیثیت مولانا محمد طیب قاسمیؒ کی سائنس پر گفتگو کی ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ مؤخرالذکر دونوں بزرگوں نے دیانت داری سے کام لیا اور اس interface پر رہتے ہوئے بات کی جو روایتی معقولات اور جدید علوم کے مابین فطری طور پر بنتا تھا۔ یعنی ان دونوں بزرگوں نے معقولی علم کے وہی tools (علوم آلیہ) برتے ہیں جو ان کو روایتاً حاصل ہوئے تھے اور جن کے وہ وارث تھے اور اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ بھی صاف ظاہر اور مشتہر و معروف ہیں۔ علوم آلیہ ادراک اور اظہار دونوں کو govern کرتے ہیں اور ان کے بغیر کارِ علمی سے وہی کچھ نکلتا ہے جو گزشتہ دو، ڈھائی سو سالہ دور میں ہمارے ہاں سامنے آیا ہے۔

مذہبی متون کی بے اصول اور صوابدیدی تعبیرات کے دنیا پر ایرادات کو علم نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے اس دور کے علوم نہ ہیوں میں ہیں نہ شیوں میں۔ اگر آدمی مذہبی اور مسلکی تعصب سے تھوڑی دیر رخصت لے کر صرف مشاہدے کو ہی رہنما بنائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے حالات بد سے بدتر کی طرف ویسے ہی پیشرفت کر رہے ہیں جیسے کہ آج سے سو سال پہلے تھے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan