Jadeed Siasi Taqat, Sovereignty Aur Shariat
جدید سیاسی طاقت، ساورنٹی اور شریعت

شریعت، دنیا میں امرِ الہی ہے اور انسان اپنی تمام حیثیتوں میں اس کا براہِ راست مخاطب ہے، یعنی الوا الامر بھی اس کے اسی طرح مخاطب اور مکلف ہیں جیسے عام فرد۔ امرِ الہی ہونے کی حیثیت سے شریعت چونکہ تاریخ میں manifest ہے اور اپنے غیرمشروط مطالبۂ اطاعت کے باعث ساورن ہے۔ یہاں یہ امر قطعی زیرِ بحث نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ Absolute Sovereign یا All Sovereign ہے کیونکہ یہ بات ایمانی اور تنزیہی ہے۔
ہم اس وقت ایک سیاسی بات کر رہے ہیں۔ جدید سیاسی طاقت بھی خود کو ساورن کہتی ہے اور اس دعوے کے ساتھ ہی جدید سیاسی طاقت اپنی ایک ایسی تشکیل کرتی ہے جس میں دوئی وجودی طور پر داخل ہے۔ جدید سیاسی تشکیل میں داخل اس دوئی کی وجہ سے وحدتِ انسانی کے ہر تصور ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وحدتِ انسانی کے امکان کا خاتمہ ہی قیامِ عدل کے ناگزیر خاتمے پر منتج ہوتا ہے۔
جدید سیاسی فکر انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کو ساورن نہیں کہتی بلکہ وہ یہ کام نہایت چالاکی اور ہنرمندی سے کرتی ہے تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت قائم کی جا سکے۔ جدید سیاسی فکر "قوم" کا ایک تصور تخلیق کرتی ہے جو اپنی اصل میں نسلی اور مکمل طور پر نسل پرستانہ ہے۔ تاریخ اور معاشرے میں تساوی کے طور پر اس تصور کا کوئی مصداق موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے مرحلے میں قوم کو تفویض شدہ ساورنٹی ایک ٹکنالوجیائی اور تنظیمی ہیئت کو منتقل ہو جاتی ہے جسے جدید ریاست کہا جاتا ہے، جو ایک ماوارئے انسان "ہستی" ہے۔
اب جدید ریاست ایک "قانون" اپنے لیے بناتی ہے، جسے آئین کہا جاتا ہے جبکہ ایک "قانون" عوام کے لیے بناتی ہے جسے ہم سہولت کے لیے عام قانون کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح جدید ریاست سے جڑا ہوا "امر" وجودی سطح پر ہی دوئی کا شکار ہو جاتا ہے اور امکانِ عدل ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی ایسا قانون بھی ممکن نہیں رہتا جو انسانوں سے علی الاطلاق مطالبۂ انقیاد رکھتا ہو۔ جدیدیت کا پیدا کردہ ساورنٹی کا تصور، سیاسی طاقت کے قلب میں juridical dissonance کو استادہ کر دیتا ہے۔ یہ juridical dissonance آئین اور عام قانون کے تضاد میں ظاہر ہوتی ہے۔
آئین ایسا "قانون" ہے جو سیاسی اور ریاستی طاقت اپنے لیے بناتی ہے اور عام قانون عامۃ الناس کے لیے وضع کیا جاتا ہے۔ آئین اور قانون کے مابین بننے والی وجودی کھائی میں عدل اوندھے منہ گر کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ سیاسی طاقت جدید ریاست کے ذریعے جو کلچر پیدا کرتی ہے اس میں اہلِ اقتدار کے لیے کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہو سکتا اور نہ ہوتا ہے، اس طرح ایک طبقہ de facto ساورن حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ آئین اور قانون کی دوئی کی وجہ سے قانون ہر قسم کی معروضیت سے خالی ہو جاتا ہے۔
جدید ریاست اس قدر طاقتور چیز ہے کہ جدید سیاسی طاقت انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ میں جو آئینی تقسیم پیدا کرتی ہے اور اس میکانکی نظام کو چلانے کے لیے جس "سیاسی عمل" کا ڈول ڈالتی ہے، وہ ادارے اور یہ سیاسی عمل بھی اس طاقت کی تحدید اور تہذیب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ آخر الامر، جدید ریاست اپنے اس چہرے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے جو بیسویں صدی میں اوائل میں یورپ میں فسطائیت کے نام پر سامنے آیا اور وہی جدید ریاست کا اصل چہرہ ہے۔ ساورنٹی یافتہ جدید ریاست ہی اس ظلم کی اساس فراہم کرتی رہی ہے جو پوری دنیا میں استعمار کے نام سے سامنے آیا۔
عالمگیر استعماری سیاسی طاقت اس وقت ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے اور ایک طویل مد کے بعد اب جزر کے عمل میں ہے۔ اب ہم اس فسطائیت کی چاپ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے گھر آنگن میں روز بروز بلند ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ میری رائے میں انسانیت اس وقت جس زبردست بحران کا شکار ہے اور جس فرجام گیری میں ہے، اس کا واحد حل ایسے قانون کی طرف مراجعت ہے جو سارے انسانوں کے لیے مساوی ہو اور وہ صرف شریعت ہے۔

