Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Ilmi Mukalma, Bhindar Sahab Ki Zaatiyat Aur Hamari Ilm Dushmani

Ilmi Mukalma, Bhindar Sahab Ki Zaatiyat Aur Hamari Ilm Dushmani

علمی مکالمہ، بھنڈر صاحب کی ذاتیات اور ہماری علم دشمنی

اگر آدمی کو مطالعۂ کتب کی عادت ہو، ذہن حریت اور آٹونومی سے محروم ہو اور وہ سوچنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو بہت جلد وہ بے نسب افکار کا آلۂ کار بن کر حق اور علم دونوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ علمی "صورت حال"، انسانی زندگی کی عملی "صورت حال" سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ نفسی داعیات اس پر مستزاد ہوتے ہیں اور کارِ علمی پر بہت گہرے طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مکالمے کے لیے آدمی کا فاعلِ علمی ہونا ضروری ہے، صرف کتابوں کا قاری ہونے سے کوئی علمی مکالمے کے اہل نہیں ہو جاتا۔

فاعلِ علمی ہونے میں کوئی ایک ساعت بھی ایسی نہیں ہوتی جب یہ فاعل انسان ہونے کی "ذمہ داری" سے خالی ہو اور ہر نوعِ علم کی انسانی نسبتوں سے تہی ہو۔ معروض کے بالمقابل، فاعلِ علمی بننے میں"خدائی" کی جو تزویرات داخل ہونے کا میلان رکھتی ہیں اس سے کارِ علمی لاحاصلی کے خطرے سے دوچار رہتا ہے اور علم کا بے معنویت (meaninglessnes)، نابودیت (nihilism) اور آلیت (instrumentality) سے محفوظ رہنا مزید دشوار ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، علمی مکالمے میں جب کسی کا کوئی موقف دیا جا رہا ہو تو کتابیں یاد رہنی چاہئیں، لیکن بات اگر کسی قضیے پر ہو رہی ہو تو دلیل لانی چاہیے۔ ہر وقت حمال کتب بننا شرفِ انسانیت کے منافی ہے۔

میں عمران شاہد بھنڈر صاحب سے علمی مکالمے کو بہت اہمیت دیتا ہوں اور اپنے مشکل حالات میں بھی اس کو جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن ان کی طرف سے ذاتیات اور علم دشمنی کے الزامات دیانت داری پر مبنی نہیں ہیں۔ مثلاً اسلام کو وہ بدو مت کہتے ہیں۔ تو کیا یہ ایک علمی قضیہ ہے؟ وہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے حوالے سے جس شیطانی innuendo سے کام لیتے ہیں وہ ہمارا دل چیر دیتا ہے۔ ایک دن وہ کہنے لگے کہ ابن عربی بھی پچھواڑے سے مذہب میں گھس جاتے ہیں۔ میں نے یہ چند ایک مثالیں دی ہیں جو مذہبی آدمی کے لیے مکالمے کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ لیکن ہم نے انسانیت کی پاسداری میں ان سے مکالمہ جاری رکھنے کی سعی کی ہے۔

رکاکت کی یہ جو مثالیں میں نے عرض کی ہیں یہ ان کے کردار کو ظاہر کرتی ہیں اور جب کوئی آدمی مکالمے میں قضیے اور کردار کے فرق کو مٹا دیتا ہے تو علمی دیانت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی ذاتیات کو موضوع بنایا جائے۔ ذاتیات کے حوالے سے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں بہ دل و جاں ان کی خیر خواہی کو عزیز رکھتا ہوں اور ان کے احترام کی پاسداری کو ضروری خیال کرتا ہوں۔ لیکن اگر انھیں اپنے افلاطون ہونے کی کوئی خوش فہمی ہے تو میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی علمی اور انسانی اوقات کوڑی کی نہیں ہے۔ ہمیں بدو مت کا پیروکار کہنے والے کی تہذیب سے ہم اچھی طرح باخبر ہیں۔ اپنے کردار کے جو مظاہر وہ سامنے لائے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں انسان ہونا تو نصیب نہ ہوا اور لگے ہیں تہذیب کی جگالی کرنے۔

میں ایک مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں اور جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انھوں نے ذاتی سطح پر شیئر کی ہو اور اس کا کہنا نجی دیانت کے خلاف ہو۔ کئی سال قبل، پہلی دفعہ انھوں نے میسنجر پر رابطہ کیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں رات کے بارہ بجے تھے اور ان کی یہ کال چار گھنٹے جاری رہی۔ انگلستان میں یہ شام کے بعد کا وقت تھا اس لیے ایک فقرہ وہ پانچ سے دس منٹ میں مکمل فرماتے تھے۔ میں گھنٹوں پر محیط ان کی کالز سنتا رہا ہوں اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔

ان کی سابقہ گفتگوؤں اور حالیہ تحریروں سے مجھے یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ ہم سے گفتگو کرنے کو condescension سمجھتے ہیں۔ شرف انسانیت یہ ہے کہ انسان سے برابری کی سطح پر گفتگو کی جائے اور میں ان کی اس condescension کو قطعی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ ان کی رکاکت مزاجی نے علمی مکالمے کو سرنگوں کیا ہے اور ایک مذہبی آدمی کی حیثیت سے ہم نے علمی مکالمے کو سربلند کیا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی کرداری رکاکت کو مکالمے سے باہر رکھیں تو ہم ہر طرح کے مکالمے کے لیے حاضر ہیں۔ ورنہ ان پر فلسفے کا جو بھوت سوار ہے وہ انشاءاللہ ادبی جھاڑ پھونک سے ہی اتار دوں گا۔

یہاں یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ "علم" اپنے ہر معنی میں مذہبی آدمی کا بنیادی مسئلہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی ترین مسئلہ گواہی/شہادت/testament ہے کہ شہود و وجود کے روبرو وہ اپنے انسان ہونے کی کیا "شہادت" سامنے لاتا ہے۔ اپنے انسان ہونے کی گواہی ہی اس شہادت کی بنیاد ہے جو وہ اس کائنات اور خالق کائنات پر دیتا ہے۔ ہر وقت علم کی ریوڑیاں سمیٹنا بھنڈر صاحب کا مسئلہ ہے ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ان Faustian ریوڑیوں کی ہوس ہی کے باعث اللہ تعالیٰ نے جدید انسان کو ان کے اپنے نفسوں سے بھلا دیا ہے۔ جس انسان کی خود شعوری کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنی رکاکت کے ادراک سے قاصر ہو، مکالمے کی اخلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہو اور انسانی اخلاقیات سے خالی ہو، تو کیا اس کے فاعلِ علمی ہونے کا دعویٰ قابل اعتنا ہوگا؟ کوئی لال بجھکڑ مغربی فلسفیوں کے متون پڑھنے سے عاقل نہیں ہو جاتا۔

میری عمران شاہد بھنڈر صاحب سے گزارش ہے کہ وہ بچے جمورے اور لال بجھکڑ کے دو وجودی قطبین سے باہر نکلنے کی کوشش کریں اور ایسے فکری وسائل کی طرف بھی توجہ دیں جو انسان کو انسان رہنے میں معاون ہوتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali