Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Falsafe Ki Be Hurmati Aur Bhindar Sahib

Falsafe Ki Be Hurmati Aur Bhindar Sahib

فلسفے کی "بےحرمتی" اور بھنڈر صاحب

بھنڈر صاحب، صاحبِ مطالعہ آدمی ہیں۔ فلسفہ خوب پڑھتے ہیں بلکہ پڑھتے ہی فلسفہ ہیں اس لیے ان کی فکر یک رخے پن کا شکار ہوگئی ہے جو ان کی حالیہ تحریروں سے بالکل ظاہر ہے۔ آنجناب انسان کی تقدیری صورت حال (human condition) کو بھی کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ مذہبی آدمی جب بھی فلسفے پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بھنڈر صاحب اپنا فلسفیانہ بستہ، تعصبات کا تھیلا اور ڈنڈا لے کر آ جاتے ہیں۔ بھنڈر صاحب انسان دوست آدمی ہیں، وہ آدمی کو تو معاف کر سکتے ہیں لیکن مذہب کے خلاف اپنی ranting میں جھاگ کے ایسے دریا بہا دیتے ہیں، کہ خود بھی اسی میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان سے میری آخری بحث علت اولیٰ کے مسئلے پر ہوئی تھی جس میں وہ حسب معمول مذہبی آدمی پر مختلف طرح کے الزام لگاتے ہیں۔

ناچیز نے ان کے موقف کی غلطی کو بالکل واضح کر دیا تھا۔ بھنڈر صاحب خود کو دہریہ کہتے ہیں اور میری ایک بحث ان سے دہریت کے حوالے سے بھی ہو چکی ہے جس میں ان سے عرض کیا تھا کہ وہ دہریے بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ وہ مرتد ہیں۔ اس پر وہ خفا ہو گئے تھے۔ میں نے علم میں رہتے ہوئے اور کسی بھی مذہبی ججمنٹ سے گریز کرتے ہوئے، دہریت اور ارتداد کے فرق کو بہت وضاحت سے بیان کر دیا تھا۔ پھر میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ بھنڈر صاحب شدید مذہب دشمن آدمی ہیں۔ فلسفہ ان کا علمی مسئلہ ہے جبکہ مذہب ان کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ مجھے ان سے ملاقات کا شرف نہیں ہے لیکن ان سے نیازمندی ضرور ہے اور مکمل اختلاف کے باوجود میں نے ان کے احترام کو ہمیشہ لازم رکھا ہے۔

ہمارے ہاں کے مذہبی اہلِ علم ان سے کنی کتراتے ہیں اور ان سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی بہانہ سازی بھی دیدنی ہوتی ہے۔ مجھے بھی کئی لوگ نصیحت کر چکے ہیں کہ بھنڈر صاحب سے مکالمہ نہ کیا کرو لیکن مجھے ناصحین کی رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ بھنڈر صاحب سے جب بھی براہ راست مکالمہ ہوا ہے انھوں نے مکالمے کے آداب اور دیانت کی ہمیشہ پاسداری کی ہے۔ میں یہاں مکالماتی دیانت اور علمی دیانت میں جائز فرق کو برقرار رکھ رہا ہوں اور مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی جھجک نہیں کہ مجھ سے کبھی کبھار اونچ نیچ ہو جاتی ہے لیکن بھنڈر صاحب اپنے مزاج خسروانہ کی وجہ سے اغماض کرتے ہیں۔

گزارش ہے کہ میں بھنڈر صاحب سے مکالمے کو ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ہماری علمی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی صاحبِ علم نے اردو زبان میں براہ راست مذہب کے خلاف مورچہ لگایا ہے اور اردو میں وہ ایسے علمی اور فکری وسائل جمع کر رہا ہے جو آگے چل کر ذہن ساز ہوں گے۔ اسلام اور اقبال بھنڈر صاحب کے خاص نشانے پر ہیں۔ اردو زبان کو ذریعہ اظہار بنانے اور زندہ مسائل پر اظہار خیال کی وجہ سے نوجوانوں میں بھنڈر صاحب کی اثرپذیری صاف نظر آتی ہے۔ ہماری موجودہ ثقافتی صورت حال میں مذہب سر کا تاج نہیں رہا، بلکہ پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے اور تقریباً ہر ذہین آدمی فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے اور بھنڈر صاحب کی تحریریں ان کو راستے سجھا رہی ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ کانٹ کا رد بہت ضروری ہے لیکن جو مذہب دشمنی، ارتداد، دہریت اور جدیدیت ہمارے گھر آنگن میں خیمہ زن ہے اس کا سامنا کرنا کہیں زیادہ urgency رکھتا ہے۔ لہٰذا عمران شاہد بھنڈر صاحب کے مواقف کا علمی جواب دینا بہت ضروری ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ نوکری، عمر اور علالت کی باعث میں اتنا اور اس سطح کا کام نہیں کر پایا جو اس طغیانی کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے مذہبی اہل علم کی ترجیحات میں اس طرح کی چیزوں کا کوئی گزر نہیں۔

بھنڈر صاحب ایک حالیہ تحریر میں ارشاد فرماتے ہیں"ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر، چار کتابیں، بیسیوں صحائف[،] پھر بھی خدا یہ نہ بتا پایا کہ وہ مجسم ہے یا غیرمجسم؟ سب اندازے لگا رہے ہیں"۔ ایک صاحبِ علم اس طرح کی تحریر نہیں لکھ سکتا۔ دراصل، تشبیہ (immanence) میں گھرے ہوئے discursive علم کی ناپاکی اس قدر ہے کہ وہ ایمانیات کے کسی پہلو پر کوئی علمی اور منطقی قضیہ بنانے کی استعداد بھی نہیں رکھتا۔ discursive علم جب تک تنزیہہ سے وضو نہ کر لے، علمی طور پر اس طرح کی گفتگو کا مجاز نہیں ہو سکتا۔ جس طرح بھنڈر صاحب کو سلسلۂ علل اور علت اولیٰ کا فرق معلوم نہیں ہو سکا، اسی طرح ان کو discursive اور transcendental علم کا فرق معلوم نہیں ہو سکتا۔

بھنڈر صاحب کا خیال ہے کہ علم صرف ذہنی استنجے کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہمارا موقف ہے کہ علم اگر انسانی becoming کے وسائل فراہم نہ کرے تو بامعنی نہیں ہو سکتا۔ بھنڈر صاحب یہ فرض کر رہے ہیں کہ مذہب میں اصل مسئلہ ذات باری کے مجسم اور غیرمجسم ہونے کا تھا اور ان کا مزعومہ خدا چونکہ فلسفہ نہیں جانتا تھا اس لیے یہ مسئلہ حل نہیں کر سکا۔ رد کرنے کے لیے ہی سہی، ان کا تصور خدا بہت گھٹیا ہے اور وہ اپنے مزعومہ خدا کو کسی یونیورسٹی کا ریڈر سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ خوش فہمی مستزاد ہے کہ انھوں نے وجود کے سارے مسائل حل کر لیے ہیں۔ اس چیز کو علم نہیں کہتے bigotry کہتے ہیں اور گوگل نے bigot کی یہ تعریف دی ہے:

a person who is obstinately or unreasonably attached to a belief, opinion, or faction, especially one who is prejudiced against or antagonistic towards a person or people on the basis of their membership of a particular group.

اگر بھنڈر صاحب اپنے علمی اور نظری مواقف سے ہٹ کر، اپنے وجودی مواقف (ontological stances) پر ایک نگاہ ڈال لیں تو ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کتنے کچھ عقلی اور علمی ہیں۔ ہمارا سوال تو ان وجودی مواقف سے ہے جن میں عقل اولاً خود کو ground کرتی ہے اور یہ مواقف علم کا ما لہ اور ما علیہ طے کرتے ہیں۔ وجودی موقف قائم کرنا علم کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مآل کار یہ انسانی اختیار کا مسئلہ ہے کہ انسان کن وجودی مواقف میں اپنی عقل کو ground کرتا ہے اور جو ہمیشہ عقل سے ماقبل ہوتے ہیں۔

شعورِ شعور ہی انسانی آزادی کی اصل اور اس کا "محل" ہے اور حریت شعور کے تحقق کے بعد پہلا سوال اختیار کا ہے علم کا نہیں ہے اور یہ اختیار ایسے مواقف اپنانے کا ہے جو وجودی ہوں، جن میں عقل کو ground کیا جا سکے اور جو انسان کے قدری عمل کی اساس بن سکیں۔ بعینہٖ یہ امور انسان اور حیوان میں مابہ الامتیاز ہیں۔ اس تقدیری صورت حال سے روگردانی ہی nihilism ہے۔ بطور مکلف انسان اور مسلمان، ہم بھی بھنڈر صاحب جتنی آزادی رکھتے ہیں کہ عقل کو ground کرنے کے لیے اپنے ایمان کو اساس بنائیں۔

حریت شعور (freedom of consciousness) کے تحقق کے بعد اول سوال علم کا ہے ہی نہیں، اختیار کا ہے۔ انسانی فطرت اولاً تکلیف (obligation) ہے، علم نہیں ہے۔ تکلیف کا مسئلہ عقل کے لیے وجودی ہے اور اس محل پر اپنے اختیار کو بروئے کار لائے بغیر عقل کوئی وظیفہ سرانجام دے ہی نہیں سکتی۔ یعنی شعورِ شعور کے ساتھ ہی جس حریت کا تحقق ہوتا ہے اس میں اختیار لزوم کے طور پر داخل ہے۔ اختیار بروئے کار آنے کے بعد عقل اپنا وظیفہ سرانجام دیتی ہے۔ بھنڈر صاحب اپنے مکتبی فلسفے سے اس بنیادی سوال کو ادھر ادھر نہیں کر سکتے اور ان کی یہ محض خوش فہمی ہے کہ مارکسیت انسان کو وجودی nihilism سے نجات دلا سکتی ہے۔

اپنی ایک حالیہ تحریر میں بھنڈر صاحب محترم غامدی صاحب پر بات کرتے ہوئے "تہس نہس" میں الجھ کر رہ گئے اور sublation کو لا دھمکے۔ وہ خود ہی تسلیم کر رہے ہیں کہ نہ صرف اپنی تغلیط اور تبطیل علم کی تقدیر ہے، بلکہ یہ بطالت علم کے قلب میں ترازو ہے اور جو تاریخ میں مکمل طور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں فلسفہ اپنی telos کو کبھی بھی نہیں پا سکا۔ عقل اتنا تو جانتی ہے کہ سچ مطلق ہوتا ہے لیکن اس کے علم میں ایسا کوئی مطلق نہیں آتا اور اپنی خلقی طلب کے باوجود وہ اضافی سچ (relative truth) پر قانع ہو جاتی ہے۔

اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ عقل حق کے ہر دعوے کو scrutinize کرنے کا داعیہ اور صلاحیت بیک وقت رکھتی ہے، لیکن حق کبھی بھی حاصلاتِ تعقل تک نہیں گر سکتا۔ یہ اضافی سچ ایک oxymoron نہیں تو کیا ہے؟ اور تہس نہس اسی کو کہتے ہیں کہ عقل اپنے کاتے ہوئے کو بار بار کھدیڑتی رہے۔ بھنڈر صاحب مذہب کو سڑاند کہتے ہیں۔ اصل سڑاند تو nihilism ہے جو جدید علم کی اصل روح ہے اور اسی سڑاند کا وہ ہر وقت دفاع کرتے رہتے ہیں۔

پھر بھنڈر صاحب سائنس کی جھنڈا اٹھا لیتے ہیں حالانکہ وہ پہلے ہی مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ان کے استمداد کی اسے ضرورت نہیں۔ تشبیہ (immanence) وجود کا ظلمانی تہہ خانہ ہے۔ سائنس کے سارے کمالات کا تعلق بھی یہیں تک ہے۔ human condition اصلاً immanence ہے اور discursive علم اسی کو normalize کرتا ہے، یعنی جدید علم شبستان وجود کو normalize کر دیتا ہے کیونکہ وہ thing سے آگے نہیں جا سکتا اور اب thing کے علم کی بنیاد پر انسان کی کتوبیونت کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنی self سے مکمل فراموشگاری میں چلا جائے۔ مجھے وہ ایسے علم کے بارے میں بھی بتائیں جو جدید عقل نے تشکیل دیا ہو اور جو قدر بن کر اپنی منزل مراد بھی پا چکا ہو۔

وہ علم کے جس historicist اور positivistic تصور پر یقین رکھتے ہیں، میں اس میں ان سے متفق ہوں۔ جدید علم کا self-statement بھی یہی ہے۔ بھنڈر صاحب فرماتے ہیں"جو علم غلط نہیں ہو سکتا، وہ صحیح بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ غلط ہی ہمیں صحیح کا شعور دیتا ہے اور صحیح ہی ہمیں بتاتا ہے کہ غلط کیا ہے۔ اس ارتقا میں غلط اور صحیح نتائج نکلتے رہتے ہیں"۔ میں ان کے اس بیان سے بھی متفق ہوں کہ عقلی اور منطقی علم صحیح اور غلط کی قطبیت میں ہی واقع ہے اور علم میں یہ چیز اس معلوم کے نقص کی وجہ سے داخل ہے جس کا یہ علم ہوتا ہے۔

عقل کسی بھی طرح نقص وجود کے ہوتے ہوئے نقص علم دور نہیں کر سکتی۔ حق کوئی rational category نہیں ہے، کیونکہ وہ axiological ہے اور صرف صحیح ہی ہے۔ discursive علم ایسا ہے جو کبھی قدر نہیں بن پاتا کیونکہ شک اس کا جزو اعظم ہے اور جو isness سے آگے سفر نہیں کر سکتا۔ is انسان کا عقلی مسئلہ ہے جبکہ ought انسان کی وجودی طلب ہے جو صرف الوہی ہدایت سے ہی فراہم ہو سکتی ہیں۔ بھنڈر صاحب اس تشبیہی، تاریخیت زدہ اور اثباتیاتی علم کے جو فضائل گنوا رہے ہیں اس کو تو اب گھر میں بھی کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔

وہ اسلامی تاریخ اور یونانی تراجم کے حوالے سے جو ارشاد فرما رہے ہیں وہ نہ صرف محض تعصبات ہیں بلکہ جھوٹ بھی ہے کیونکہ یہ کوئی خفیہ تاریخ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالص عقلی منطقے میں اور مابعدالطبیعاتی دائرے میں جس تہذیب نے یونانیوں کو نگوں سار کیا وہ صرف اسلامی تہذیب ہی ہے اور تہذیب مغرب کو بھی چیلنج اسی روایت سے آئے گا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam