Bharat Aur Barre Sagheer Ka Mustaqbil
بھارت اور برصغیر کا مستقبل

اگر بھارت پر گفتگو کا کوئی اور سبب نہ ہو تو بھی بھارتی امور پر مستقل گفتگو ضروری ہے کیونکہ یہ دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اور اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس تحریر کا فوری سبب تو مودی کی بیکانیر میں حالیہ تقریر ہے۔ ان کی تقریر سن کر میرا تو دل ہی بیٹھ گیا کہ برصغیر کا مستقبل کیا رنگ لانے والا ہے۔ میرے ذہن میں بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا عصر حاضر میں بھارت کوئی بڑا تہذیبی تصور سامنے لا سکتا ہے؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بھارت میں جن سیاسی اور معاشی تصورات کا غلبہ ہو چکا ہے اور مسلمانوں کی نفرت نے جس طرح بھارتی معاشرے میں زہر گھول دیا ہے، اس سے کسی بھی طرح کے نارمل معاشرے کا قیام ممکن نہیں رہا۔ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ نفرت کسی بھی طرح کی راج نیتی کی بنیاد نہیں بن سکتی اور آخرالامر صید و صیاد دونوں کے لیے ہلاکت آفریں ہوتی ہے۔
آج کی دنیا کے ہر معاشرے میں سیاسی اور معاشی اداروں کی جو بھی بنیاد ہے وہ مغرب سے درآمد شدہ ہے۔ دنیا میں اس وقت کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہے جو کسی غیرمغربی تصور پر کھڑا ہو۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے یا مابعد دنیا کا کوئی معاشرہ ایسا کوئی تصور سامنے نہیں لا سکا جو وہاں کا خانہ زاد ہو اور اجتماعی سطح پر معاشی اور سیاسی زندگی کی بنیاد بنا ہو۔ آزادی کے وقت بھارت میں راج نیتی/ فرمانروائی کی بنیاد لبرل جمہوریت تھی جس پر استعماریت کی چھاپ بہت گہری تھی۔ اگرچہ بھارت میں ردِ استعمار کا کام مسلم ممالک سے کہیں زیادہ ہوا ہے لیکن لبرل جمہوریت اور سیکولرزم کا توام مستحکم نہ رہ سکا۔
مذہبی جواز کے ساتھ ہندتوا کے طاقتور سیاسی تصور نے لبرل جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادیں ہلا دیں اور ان کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ ہندتوا اصلاً ہندو شناخت کا سیاسی تصور ہے لیکن اپنے اظہار، ابلاغ اور عمل (praxis) میں اور اپنی تہذیبی تشکیل میں داخلی طور پر یہ خود مختار اور خود مکتفی نہیں ہے اور مغرب سے مستعار ایک بڑے تصور کا مکمل مرہون منت ہے اور وہ فسطائیت ہے۔ یعنی یہ چولا تو بھارتی ہے لیکن اس کی بُنائی، کڑھائی، پیمائی اور سلائی فسطائیت کے سانچے پر ہوئی ہے۔ ہندتوا کا نظریہ، نفرت کی تہذیبی تقویم بن کر رہ گیا ہے اور حالیہ دنوں میں یہ نفرت جس طرح ہذیان میں تبدیل ہوئی ہے اس سے مستقبل کوئی اچھا نظر نہیں آ رہا۔
جیسا کہ عرض کیا کہ باقی دنیا کی طرح آزادی کے وقت بھارت نے بھی ایک مغربی تصور پر اپنی فرمانروائی کا آغاز کیا تھا لیکن ایک نہایت ہی مکروہ مغربی تصور بھارت میں خانہ زاد ناموں سے نہ صرف ابھرنے بلکہ پورے بھارتی معاشرے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ کہنا بعید از حقیقت نہیں کہ برصغیر کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں ہندو معاشرہ جو بڑا تہذیبی تصور سامنے لایا ہے وہ ہندتوا ہے اور وہ بھی جڑ تا چوٹی فسطائیت میں سنچا ہوا ہے۔ ہندو مذہب اور تاریخ میں ہندتوا کے سیاسی تصور اور عمل کی کوئی معنویت سامنے نہیں لائی جا سکی اور یہ اپنی معنویت میں سرتاسر مغربی فسطائی تصور کی مکمل دروں کاری سے بننے والا تصور اور سیاسی عمل ہے۔
راج نیتی کی بنیاد کے طور یہ حقیقت اس کو کہیں زیادہ virulent بنا دیتی ہے۔ ہندتوا کے ظہور سے یہ امر بھی بالکل واضح ہوگیا ہے کہ ہندو معاشرہ یا ہندو تہذیب اب کوئی بڑا سیاسی تصور یا عمل سامنے لانے کی استعداد سے محروم ہو چکی ہے۔ ہندتوا اصلاً ایک نسل پرستانہ تصور ہے جو اپنی articulation کے داخلی ذرائع سے مکمل طور پر محروم ہے۔ جس طرح مراٹھا مزاحمت اور عروج کسی تہذیبی اپج سے خالی تھا اور کوئی بڑی synthesis حاصل نہ کر سکا، اسی طرح ہندتوا بھی ایک ایسا تصور ہے جو اس معاشرے میں پیدا ہوتا ہے جو ستی ہونے کی تیاری میں ہو۔ لیکن معاشروں کی ستی صرف انھی تک محدود نہیں رہتی جیسا کہ جرمنی کی تاریخ سے ظاہر ہے۔ معاشروں کی ستی اپنے ساتھ بہتیروں کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔
یہاں تھوڑی دیر کے لیے تاریخ میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طاقت ایسی چیز ہے جو کسی جوازی اور توسیطی تصور کے بغیر باقی ہی نہیں رہ سکتی۔ جب ہم انسان کہتے ہیں تو اس سے یہ بھی مراد ہوتا ہے کہ وہ کپڑے بھی پہنتا ہے اور یہ الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب ہم سیاسی طاقت کہتے ہیں تو اس کا احتوائی تصور بھی ازخود مراد ہوتا ہے۔ یعنی حاکم کا ایک تصوری لباس لازمی ہوتا ہے، یعنی سیاسی طاقت لازماً ایک ورلڈ ویو کی حامل ہوتی ہے۔
تاریخ میں دو بار ایسا ہوا ہے کہ حاکم /سیاسی طاقت کا ورلڈ ویو منہدم ہو جاتا ہے اور وہ محکوموں کا ورلڈ ویو اختیار کر لیتا ہے۔ ایک بار قسطن طین نے ایسا کیا جب اس نے اپنے سابقہ پیگن مذہب کو ترک کرکے عیسائیت اختیار کر لی۔ دوسری بار یہی فینامیناں برکے خان کے معاملے میں سامے آیا جب اس نے اپنے پیگن مذہب کو ترک کرکے اسلام قبول کر لیا۔ برصغیر میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور جس کی معنویت سمجھنا ضروری ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی طاقت جب نقطۂ عروج پر پہنچتی ہے تو اس کا ورلڈ ویو منہدم ہو جاتا ہے۔
اکبر اعظم نے اسلام ترک کر دیا اور اپنی محکوم اکثریت سے ایک نیا ورلڈ ویو حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہندو معاشرہ اسے کوئی ورلڈ ویو نہیں دے سکا۔ ورنہ احیائے جہانگیر تک اس امر کی گنجائش تھی کہ ہندو مت سے کا کوئی بڑا تصور سیاسی طاقت سے جڑ کر برصغیر کے معاشرے کی کایا کلپ کر دیتا۔ اگر ایسا واقعتاً ہو جاتا تو یہاں مسلمانوں کا نشان بھی باقی نہیں رہنا تھا۔ لیکن برصغیر کی تاریخ کے اس حیرت انگیز واقعے سے مجھے ہمیشہ یہ باور آتا رہا ہے کہ ہندو معاشرہ اپنے تہذیبی امکانات ختم کر چکا ہے اور اب اس میں سے کوئی ایسا بڑا تصور نہیں ابھر سکتا جو انسانیت کے لیے مفید یا اس کے کام کا ہو۔
آزادی کے بعد بھارتی معاشرے کی فضا ایسے کسی تصور کے سامنے آنے کے لیے سازگار ہوگئی۔ عہد استعمار میں ہندو اور مسلم معاشرے میں اصلاح، مزاحمت یا احیا کے زیرعنوان جو بھی تصورات سامنے آئے آزادی کے بعد وہی ثمرآور ہوئے ہیں۔ ایسا ہونا فطری اور ناگزیر تھا۔ بھارتی معاشرے میں ہندتوا احیا اور مزاحمت کا بڑا تصور ثابت ہوا جو آخرکار سیاسی عمل پر غالب آ گیا اور لبرل جمہوریت کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ دو قومی نظریے کی طرح ہندتوا بھی استعمار کو سرے سے اڈریس ہی نہیں کرتا۔ دو قومی نظریہ اور ہندتوا ماضی اور حال کو دیکھنے کا ایک ہی انداز رکھتے ہیں یعنی دو قومی نظریے کے مطابق برصغیر کے مسلم معاشرے کو سب سے بڑا خطرہ ہندوؤں سے ہے اور ہندتوا کے بقول سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں سے ہے۔ دو قومی نظریے اور ہندتوا میں تین فرق بہت بنیادی نوعیت کے ہیں: تحریک آزادی میں مسلم سیاسی عمل کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور ہندتوا کا تحریک آزادی میں کوئی رول نہیں تھا۔
آزادی کے بعد ہندتوا تدریجاً ہندو معاشرے کے سیاسی عمل کی بنیاد بننے میں کامیاب ہوگیا جبکہ پاکستان کے سیاسی عمل سے دو قومی نظریہ بتدریج خارج ہوگیا یہانتک کہ سیاسی عمل ہی کا خاتمہ ہوگیا اور طاقت اور معاش کے تمام وسائل استعمار کے بنا کردہ اداروں کو منتقل ہو گئے۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ فکری اور عملی سطح پر ہندتوا برصغیر میں مسلمانوں کو معمولی space دینے کا بھی کوئی امکان نہیں رکھتا۔ ہندتوا extremely exclusive ہے، اس حد تک کہ وہ نہ صرف حال کو اپنی شرائط پر بدل دینا چاہتا ہے بلکہ وہ مسلمانوں کو ماضی اور تاریخ میں بھی مٹانے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔
دو قومی نظریے میں برصغیر کے مسلم معاشرے میں جدید سیاسی عمل کو بنیاد فراہم کرنے اور سیاسی طاقت کو جواز دینے کے میلانات زیادہ غالب رہے ہیں۔ برصغیر میں ہندو اور مسلم معاشروں کی تقدیر یہ ہے کہ انھوں نے ایک یا الگ الگ طاقت کے نظاموں میں ساتھ رہنا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان میں ایک دوسرے کا مکمل صفایا کر سکے، اس لیے نئے سیاسی نظریات یا سیاسی نظریات کی نئی تعبیرات کی ضرورت ہے۔ ہندتوا کے زیر اثر ہندو معاشرہ جس تاریخی نتائج کی طرف بڑھ رہا ہے وہ خود ہندو معاشرے کی بقا کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہیں۔
یہ انسانی معاشروں کی تقدیر ہے کہ اگر کسی نظریے کی بنیاد پر کوئی سیاسی عمل قائم ہو جائے تو وہ اپنے منطقی اور فطری امکانات پورے کرکے رہتا ہے۔ ہندتوا نے جس سیاسی عمل کو جنم دیا ہے اور ریاستی طاقت کی جو تشریط کی ہے وہ ہر حال میں سیاسی اور تاریخی نتائج مرتب کریں گے۔ ہندتوا کا بنیادی ترین مقصد تو اکھنڈ بھارت کا قیام ہے۔ سلیس زبان میں اس کا مطلب پاکستان کا خاتمہ ہے جو صاف ظاہر ہے کہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب بھارت کا بھی خاتمہ ہے۔ اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہندتوا سے ولولہ پانے والی بھاجپا اپنے عزائم کو بھارتی مسلمانوں پر مسلط کرے۔

