Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Barre Sagheer Aur Baladasti Ka Sawal

Barre Sagheer Aur Baladasti Ka Sawal

برصغیر اور بالادستی کا سوال

پاکستان اور بھارت کے مابین جو کچھ بھی ہوتا رہے، اس میں ایک سوال سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک، اسی سوال نے برصغیر کے ان دو اہم ملکوں کے درمیان ہر طرح کے تعلقات کو بھی متعین کیا ہے۔ یہ سوال برصغیر میں سیاسی طاقت کی بالا دستی کا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے چھوٹے ملکوں سے منوانے کے بعد، بھارت پاکستان سے اپنی بالا دستی تسلیم کرانے کی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔

میری رائے ہے کہ موجودہ پاک بھارت عسکری بحران نے اس مسئلے کو حتمی طور پر حل کیے بغیر اس کی نوعیت تبدیل کر دی ہے۔ اب بھارتی بالادستی کا خواب، اکھنڈ بھارت (Pax Indica) کی صورت میں اس کا خواب تو رہے گا لیکن تاریخ میں اس کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ جیسے کوئی روڑا اوپر پھینکیں تو وہ انتہائی بلندی پر پہنچنے کے بعد نیچے کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ میری رائے میں یہ عسکری بحران بھارتی طاقت کا نقطۂ عروج ثابت ہوا ہے اور واپسی کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔

برصغیر میں بالادستی کا سوال کافی حد تک تقدیری نوعیت کا ہے کہ اس خطے میں بالادستی (paramountcy) صرف ایک ہی طاقت کی ہوگی لیکن ناگزیر طور پر یہ سوال تاریخ بن کر ظاہر ہو سکتا ہے۔ موجودہ پاک بھارت صورت حال بہت گہری تاریخی جڑیں رکھتی ہے اور حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کی دکن فوجی مہم کے unintended consequences سے براہِ راست متعلق ہے (سردار پٹیل کا مجسمہ ذہن میں رہے)۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کی اس مہم سے دکن اور گجرات کے مرہٹوں میں ایک ایسی مزاحمتی تحریک پیدا ہوگئی جو اب تک اپنے آپ کو work out کر رہی ہے۔

تاریخی تناظر میں دیکھیں تو اس بات کا بہت حقیقی امکان تھا کہ اٹھارھویں صدی میں ہی مرہٹے پورے ہندوستان کے حکمران بن جاتے لیکن دو تاریخی واقعات سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی فتح اور پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کی عبرتناک شکست۔ جنگ پلاسی کے بعد انگریز ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ہندوستان میں داخل ہو گئے۔ پانی پت کی لڑائی کے بعد مرہٹوں میں سیاسی اور عسکری ابھار پھر پیدا ہوا اور انھوں نے اٹھارھویں صدی کے اواخر میں دلی پر پھر سے قبضہ کر لیا لیکن سنہ 1803ء میں انگریزوں سے شکست کھا کر برصغیر کے سیاسی نظام میں اپنی اہمیت کھوتے چلے گئے۔

انگریزوں کے اقتدار نے مرہٹوں کی سیاسی آرزوؤں کو خاک میں ملا دیا اور انگریزی اقتدار میں یہ سوال بھس میں چنگاری کی طرح دب رہا۔ اس طرح مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد برصغیر پر اقتدار کے لیے مرہٹوں کی "باری" نہ آ سکی اور انگریز اس پر قابض ہو گئے۔ انگریزوں کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ سوال پوری شدت سے پھر ابھر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرہٹے اور ہندتوا والے پاکستان اور مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ ان کی "متوقع" عملداری سے باہر کیوں ہو گئے۔

بیسویں صدی میں تقسیم بنگال سے جب نئی سیاست کا آغاز ہوا تو بتدریج یہی سوال پوری سیاست پر غالب آ گیا اور برصغیر کی تقسیم پر منتج ہوا۔ انگریزوں کے اقتدار میں مقامی لوگوں کی نمائندگی بھی اسی سوال کے گرد گھومتی تھی۔ ماقبل تقسیم سیاست میں نمائندگی کا سوال بنیادی طور پر بالادستی کا ہی سوال تھا جس کو کرپس مشن بھی حل نہ کر سکا اور ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہوگئی۔ مسلمانوں کی طرف سے دو قومی نظریہ، مسلم لیگ اور تحریک پاکستان بنیادی طور پر اسی سوال سے نبرد آزما تھے۔ تقسیم کے بعد یہ سوال پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک طویل stalemate کی صورت اختیار کر گیا۔ اگرچہ سانحۂ مشرقی پاکستان سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ سوال ختم ہوگیا تھا۔ لیکن یہ محض دھوکا ہی تھا۔

گزشتہ سال کے واقعات سے یہ سوال بنگلہ دیش میں سیاسی سطح پر پھر سے لوٹ آیا ہے۔ مسئلہ کشمیر اس سوال کی محض ایک آڑ ہے، کیونکہ مسئلۂ کشمیر کے حل سے بالادستی کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ برصغیر میں امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ تاریخ کا معمولی شعور رکھنے والے لوگ بھی یہ جانتے ہیں کہ برصغیر میں Pax Islamica اور Pax Britanica اسی مسئلے کے حل ہی کے مختلف نام ہیں۔ اکھنڈ بھارت Pax Indica کا خواب ہے۔ پاک بھارت ایٹمی ہم چشمی نے اس مسئلے کو وقتی طور پر دبا دیا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا شدید ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے بھی ہاتھ گریبانوں پر ہیں۔

پاکستان نے برصغیر میں بھارت کی بالادستی کو کبھی قبول نہیں کیا اور بھارت نے اپنا ارادہ اور کوشش کبھی ترک نہیں کی۔ سقوط ڈھاکا پاکستان کے لیے بہت ہی خطرناک لمحہ تھا۔ اُس وقت پاکستان کی حیثیت a house divided against itself کی تھی اور اب بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لیکن ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے معاملہ ٹل جاتا ہے۔ اس پہلو سے بھارت کے داخلی حالات بھی سخت تشویشناک ہیں۔ پاکستان میں سرمائے اور طاقت کی حرکیات دونوں اس وقت سخت عدم استحکام کا شکار ہیں۔ بالا دستی کا مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب طاقت استحکام میں ہو اور سرمایہ پیداواری عمل سے ترقی میں ہو۔ اس لیے اگر مسلمانوں نے برصغیر میں رہنا ہے تو انھیں دور رس سوچ اور لمبی تیاری کرنی پڑے گی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali