Aqwam e Muttahida Mein Firon Ki Mulazmat
اقوام متحدہ میں فرعون کی ملازمت

لسان العصر اکبر الہ آبادی غیرمعمولی تاریخی اور انسانی بصیرت کے حامل تھے اور زمانے کو آر پار دیکھتے تھے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ جو کچھ وہ دیکھتے تھے اسے دکھلانے پر بھی قادر تھے۔ ان کے زمانے میں غیر یورپی زبانیں، یورپ کے پیدا کردہ تہذیبی مناظر اور مظاہر کے ادراک ہی سے قاصر تھیں کجا یہ کہ وہ ان کا اظہار کر پاتیں۔ لیکن انھوں نے "نیٹو" عقل کے ممولے کو پیرہن شعر میں ہمسر شہباز کر دیا۔ یہ فن کا معجزۂ مستمر ہے۔ مثلاً اسی شعر کو لیجیے جس پر میری پہلے کی گئی کچھ معروضات اب کچھ اور ہوگئی ہیں:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اپنے اس شعر میں وہ دورِ استعمار کے برطانوی حکمرانوں کا موازنہ فرعون سے کرتے ہوئے اس کی نارسائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے شعر سے مترشح ہے کہ اکبر الہ آبادی برطانوی ہند کے استعماری فرمانرواؤں کے مقابلے میں فرعون کو طفلِ مکتب خیال کرتے ہیں۔ جدید عہد میں سرمائے اور طاقت کی ہیئتیں کس قدر سفاک ہو سکتی ہیں اس کی انھیں پوری آگہی تھی اور جس کا ایک شمہ بھی ہمارے سیاسی ملاؤں کو کبھی نصیب نہ ہو سکا۔ یہ کہ سیاسی طاقت جان لے لیتی ہے تاریخِ انسانی کا ایک امر عام ہے، لیکن اکبر الہ آبادی برطانوی استعماری ریاست میں ایک بالکل ہی نئی چیز دیکھ رہے تھے۔
فرعون اور جدید ریاست کے جبر و استبداد میں صرف یہی فرق نہیں تھا کہ مؤخر الذکر ان تمام وسائل کو نہ صرف کئی ہزار گنا بڑھا چکی تھی بلکہ اب وہ اس پر بھی قادر تھی کہ انسان کو طبعی طور پر زندہ رکھے اور اسے انسان ہونے کی حیثیت سے قتل کر دے۔ فرعون کے برعکس، لسان العصر کو جدید ریاست انسانی انفس پر بھی اسی طرح متغلب اور متصرف نظر آتی تھی جیسے کہ وہ آفاق میں مطلق جبر اور استیلا حاصل کر چکی تھی۔
فرعون اگر بلی کی مانند تھا تو برطانوی استعمار کی قائم کردہ جدید ریاست ایک ایسے ٹکنالوجیائی بھیڑیے کی طرح تھی جو انسان کے طبعی وجود سے آگے اس کی داخلیت کو نخچیر بنانے پر بھی قادر تھی۔ فرعون اس لیے قتل کرتا تھا کہ اس کے غلبے کو کوئی چیلنج نہ رہے، لیکن جدید ریاست تعلیم عامہ کے ذریعے سے ایسے ممکنہ افراد کے اندر کو کھرچ کر اپنا بچہ جمورا بنانے کی مکمل استعداد رکھتی تھی اور ایک نئی داخلیت بنا دینے کے مکمل وسائل سے لیس تھی، ایک ایسی داخلیت جہاں مزاحمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو۔
یہ تو برطانوی استعمار کی قائم کردہ جدید ریاست اور اس کے کارپردازوں کا فرعون سے ایک موازنہ تھا۔ لیکن مابعد استعمار، سرمائے اور طاقت کی مستحکم ہیئتوں، ڈجیٹل ٹکنالوجی اور ٹکنوکریسی کے دور میں اگر ملتِ اسلامیہ میں فرمانروائی کے نمونوں کو دیکھا جائے تو فرعون، نمرود، ہامان و چنگیز بچے جمورے اور نہایت معصوم دکھائی دیتے ہیں۔ مثالیں ہی مثالیں ہیں، لیکن شام میں بشار الاسد کے جو "کارنامے" حال ہی میں سامنے آئے ہیں وہ عبرت انگیز اور چشم کشا ہیں۔
افسوس کہ آج اہلِ جبر کو فرعون کہنے کی معنویت کمزور پڑ چکی ہے اور ہماری زبانیں، علوم اور ادب بشار الاسد جیسے جبارین کی نئی معنویت کو اظہار دینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ یعنی عصر حاضر میں سیاسی طاقت اتنے بڑے تحول سے گزر چکی ہے کہ ہماری زبانیں اس کو بیان کرنے کے وسائل نہیں رکھتیں۔ مثلاً کیا چنگیز اپنے خون آشام خوابوں میں بھی غزہ جیسے مناظر تخلیق کرنے پر قادر ہو سکتا تھا؟ وہ اپنے عمل کی انسانی ذمہ داری قبول کرنے میں واشگاف تھا اسی لیے وہ اپنے مقتولین کی لاشوں اور کھوپڑیوں کے ڈھیر لگاتا تھا۔ مقتول ہونا بھی ایک انسانی "شرف" ہے اور عصر حاضر میں انسان کو سیاسی مقتول ہونے کا شرف بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
کیا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہولوکاسٹ میں مرنے والے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا مینار کتنا بلند ہوگا؟ لیکن تاریخ اس ڈھیر کو دیکھنے سے قاصر اس لیے رہی کہ اس کی چشم تماشا بھی جدید ریاست کے اذن سے کھلتی اور بند ہوتی ہے۔ آش وٹز کیمپ کے اہلکار یہودیوں کو بتایا کرتے تھے کہ تم باہر جا کر اگر لوگوں کو یہ سب کچھ بتاؤ گے تو کوئی یقین ہی نہیں کرے گا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جب روسی فوجی آش وٹز میں داخل ہوئے تو انھیں وہاں کوئی غیرمعمولی سرگرمی نظر نہیں آئی اور ان کیمپوں کی حقیقت دنیا پر بتدریج ظاہر ہوئی۔ جیسے بشار الاسد کے کیمپوں سے اندازہ تو ہوا ہے کہ کچھ بھیانک ہوا ہے لیکن کیا اور کتنا ہوا ہے وہ کبھی بھی پتہ نہیں چل سکتا۔
اکبر الہ آبادی نے استعماری ریاست کے ایسے پہلوؤں کو "دیکھا" ہے جو اس وقت صرف چشم بینا ہی دیکھ سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ آج کی دنیا کو دیکھتے تو کیا کچھ دیکھ پاتے؟ میرا خیال ہے کہ اکبر الہ آبادی فرعون کو اقوام متحدہ میں پانی بھرنے کی ملازمت دلوانے کا نہ صرف مشورہ دیتے بلکہ اس کے لیے مخلصانہ کوشش بھی کرتے تاکہ وہ خدمت کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کے اولوا الامر کو دیکھ کر عبرت بھی پکڑتا۔

