Ittehad
اتحاد
اتحاد! باہمی ربط و تعلق کا مظہر ہوتا ہے۔ اتحاد! مشترکہ مفادات و مقاصد کے حصول کے لئے پہلے زینہ کی مانند ہوتا ہے۔ اتحاد! انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے، یکسانیت و طمانیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر کہا جائے تو اتحاد محبین کے لئے آنکھوں کا تارا اور مخالفین کے لمحہ بہ لمحہ کوڑوں کی مثل برسنے والا تازیانہ ہوتا ہے جس کے برسنے سے اُن کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔
انسان اگر اپنے گِردوپیش کا بغور مشاہدہ کرے تو اِس پر واضح ہوگا کہ دنیا و مافیھا کی ہر شے اختلافات کے باوجود باہمی اتحاد و اتفاق کا دلکش منظر پیش کر رہی ہے۔ کائنات ہر لمحہ وسعت پذیر ہےلیکن "کُن فیکون" کے مراحل میں کہیں بھی فُطور نظر نہیں آتا۔ ہر سُو ہم آہنگی اپنے رنگ بکھیرے ہوئے ہے۔ ستارے و سیاّرے بظاہر اَن دیکھے مگر متعین مقام کی طرف رواں و دواں ہیں، شمس وقمر متضاد ہیّت و ہیبت رکھنے کے باوصف مقررہ راستوں پر چلے جا رہے ہیں۔ لیل ونہار، بحرو برّ، بہار وخزاں، چرند وپرند، حیوان و نباتا ت حتٰی کہ حشرات الارض کا مشاہدہ بھی کیا جائے تو ہر طرف اتحاد واتفاق اپنی رنگینیوں کا جلوہ بکھیرتا نظر آتا ہےجبکہ "لائف سائکل" کے لحاظ سے یہ سب ایک دوسرے کے وجود کے استحکام کے لئے بنیادی غذا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر جاندار دوسرے جاندار کو اپنے فطری اصولوں کے مطابق شکارکرتا نظر آتا ہے۔ گوشت خور اپنی خوراک کے لئے تگ ودو کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سبزی یا گھاس خور جاندار بھی اِسی طرز پر زندگی گزار رہے ہیں۔ جو روزِ اوّل سے اُن کے لئے متعیّن کر دیا گیا ہے۔
اِس سارے سائکل کا تھوڑی دیر کے لئے مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے وجود کے درپے ہیں۔ طاقتور، کمزور کے وجود کو مٹا دینا چاہتا ہے اور کمزور کا سارا وقت خود کو محفوظ رکھنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ لیکن خالقِ ارض و سماء نے اِن سب میں ایسا توازن قائم رکھا ہوا ہے کہ اِن سب اعمال کے باوجود سارے جاندار اپنی افزائش نسل کے مراحل بھی مکمل کر رہے ہیں اور ساتھی مخلوقات کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں جو مجموعی طور پر نظام میں اتحاد اتفاق کا مبین مظہر ہی ہے لیکن!
لیکن ابنِ آدمؑ، مسجودِ ملائکہ، مکرّم بر از تمام مخلوقات کا طرزِ عمل کیا ہے اور کیسا ہونا چاہیے؟ یہ سوچنے، سمجھنے اور تنظیم نو کرنے والی بات ہے۔ ازل سے اُس کے لئے اخوت کے رشتے میں انُسیت رکھی گئی ہے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کی طاقت ہوتا ہے جس کی شہادت واقعہ موسیٰؑ و ہارونؑ میں موجود ہے۔ اِسی طرح رشتے و ناطے غم و خوشی میں ایک دوسرے کے لئے مضبوط سہارا بنتے ہیں۔ بلا شبہ جس طرح اُنسیت کا عنُصر انسان کی طبیعت میں پایا جاتا ہے عین اُسی طرح نفرت کا رحجان بھی برابر کمیت رکھتا ہے۔ قصہ ہابیل و قابیل سے اس نفرت و عداوت کا آغاز ہوگیا تھا لیکن کیا یہ طرزِ عمل انسانی حیات کی بقاء کا ضامن بن سکتا ہے؟ کیا یہی طریقہ تمام تر زندگی میں برتا جائے تو راحت و سکون نصیب ہو سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
کسی بھی دین و مذہب کی بنیادی تعلیمات میں ہمیشہ جنگ و جدل کا ماحول برپا رکھنے کی ترغیب نہیں دلائی گئی سبھی مذاہب نے جنگ کو آخری حربہ اور دفاعی نقطہ نظر سے اختیار کرنے کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ حتٰی کہ سب سے محبوب دین، دین اسلام میں بھی جنگ اختیار کرنے کا نقطہ نظر عصر حاضر میں رائج تمام جنگی افکار سے یکسر مختلف دیکھائی دیتا ہےجبکہ دینِ مبین کا اپنے متبعین کے لئے واضح پیغام "اعتصم بحبل" کا ہے اور فرقہ بازی کو صرف آپس میں تعارف کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اتحاد و اتفاق کو اسلامی تعلیمات میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ جہاں پس میں اخوت و مودّت سے رہنے پر زور دیا گیا ہے وہیں معاشرتی سطح پر سماج کے دیگر فریقین سے بھی مساویانہ سلوک روا رکھنے کا درس دیا گیا ہے لیکن عصری ماحول کو دیکھا جائے تو ہر شخص جنگجو کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ ہر فرد کے اعصاب تنے ہوئے ہیں۔ وجوہات میں بجا کہ ملک کے معاشی معاملات انتہائی ناگفتہ بہ حالت سے بھی بدتر ہو گئے ہیں لیکن مایوسی و ناامیدی تو رحمتِ الٰہی سے دور کر دیتی ہے۔
حالات جتنے بھی دگِرگوں ہوں آپس میں انتشار خلفشار پھیلانے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا اسلام کا پیغامِ اخوت ذاتی انا سے بھی کم تر درجے پر منتقل ہوگیا ہے؟ راقم الفاظ کی تمام دردِ دل رکھنے والوں سے التماس ہے کہ فرقہ واریت اور اختلاف پیدا کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کی جائے اور امت کا شیرازہ اکٹھا کرنے کے لئے اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا جائے۔