Tareekh Ke Shelf Se
تاریخ کے شیلف سے
پطرس بخاری کو محفل آرائی کا بڑا شوق تھا۔ دن بھر جتنی بھی مصروفیت رہی ہو رات کو گپ شپ کے لیے بزمِ دوستاں ضرور آباد کرتے۔ اس شوق میں دوستوں کو گاڑی میں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرنی پڑتی۔ 2010 میں، معروف شاعر شہزاد احمد نے، الحمرا میں ادبی کانفرنس میں گزرے زمانے کی یادیں تازہ کیں تو اس موقعے پر صوفی تبسم کی زبانی سنا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا۔
صوفی تبسم نے شہزاد احمد کو بتایا کہ ایک دفعہ دوست احباب پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر بیٹھے محوِ گفتگو تھے کہ ادھر پولیس والے آ گئے اور درشتی سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ پطرس کی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بولے یہ کھٹارا کس کا ہے؟ ، اس کے بعد پطرس سے پوچھا کہ ان کی تعریف
انھوں نے جب اعتراف، کیا کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں تو پولیس والوں نے یقین نہیں کیا اور کہا کہ شکل سے شریف آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن ہو آوارہ گرد۔ اس کے بعد سید عابد علی عابد نے اپنا تعارف دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کروایا تو اس کا بھی یقین نہ کیا گیا۔ فیض احمد فیض کو پاکستان ٹائمز اور چراغ حسن حسرت کو امروز کا ایڈیٹر تسلیم کرنے سے بھی پولیس والے انکاری تھے۔
صوفی تبسم نے خود کو گورنمنٹ کالج میں فارسی کا استاد بتایا تو انھیں جواب ملا کہ تم استاد نہیں بہت استاد ہو۔ قصہ مختصر، پولیس ان مجرموں، کو گرفتار کر کے تھانے لے گئی، یہ تو خیریت گزری کہ وہاں کسی نے ان باکمال ہستیوں کو پہچان لیا، جس کے بعدمعافی تلافی کے لیے پولیس کے اہلکاروں نے منت ترلے شروع کر دیے۔
شہزاد احمد نے ایک دفعہ سید عابد علی عابد سے اِس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ بس صوفی صاحب نے پکڑے جانے کی جگہ صحیح نہیں بتائی، ہم اصل میں ہیرامنڈی میں پکڑے گئے تھے۔