Qarz
قرض
انسان کسی پریشانی کے باعث قرض لیتا ہے پھر اسے قرض کی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔ قرض اور بیوی میں کوئی فرق نہیں، دونوں بلائیں ایک بار چمٹ جائیں تو ساری زندگی سود دینےکے باوجود مرتے دم تک چمٹی رہتی ہیں۔ قرض دار اور شوہر کو معاشرہ ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ قرض اور چندے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ چندہ پستول دکھا کر لیا جاتا ہے اور قرض لینے کے بعد قرضدار کو پستول دکھانا پڑتا ہے۔
مہذب معاشرے میں قرض دار بینک سے قرض لیتا ہے جبکہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں قرض دینے کا فریضہ دوست، رشتےدار اور محلے کے دکاندار انجام دیتے ہیں۔ ہر انسان مہذب ہوتا اگر وہ قرض نہ لیتا۔ محبت کے بعد قرض وہ بیماری ہے جو نیند اڑادیتی ہے۔ محبت دو انسانوں کو قریب لاتی ہے جبکہ قرض انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کردیتا ہے۔ قرض ادا کرنا ایسا ہی فریضہ ہے جیسے ساس کو سونے کا نوالہ کھلانا۔ اگر قرض لوٹانا مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو دنیا کا کوئی قرض کبھی ادا نہ ہو۔
بینک قرضہ دینے کے ماہر ہوتے ہیں مگر صرف ان کو جنھیں قرض لینے کی چاہت نہیں ہوتی۔ دنیا کا وہ ملک جو قرض لینے میں مہارت رکھتا ہے اسے پاکستان کہتے ہیں۔ قرض کی مے غالب پیتے تھے اور اپنے بعد یہ لت پاکستانی حکمرانوں کو لگا گئے۔ غریب وہ ہوتا ہے جو قرض کی رقم اپنے بچوں پر خرچ کرتا ہے۔ بیوی سلیقہ مند اور خوبصورت ہو تو شوہر قرض بھی نہیں لیتا۔ قرض دار اپنے چہرے، باتوں اور گوشہ نشینی سے پہچاناجاتا ہے۔ بلی اور قرض دار باربار گھر بدلتے ہیں۔
کسی سے دوستی ختم کرنی ہے یا دشمن کو زیر کرنا ہو، اسے قرض دے دو۔ برے داماد، ڈھیٹ قرض دار اور امریکہ کی خصلت ایک جیسی ہے یعنی مال پر قبضہ کرکے آپ ہی کو آنکھیں دکھانا۔ قرض خواہ اس دنیا میں والدین کے بعد آپ کا واحد ہمدرد ہوتا ہے جو آپ کی زندگی اور اچھی نوکری کی ہر وقت دعا کرتا رہتا ہے۔ آج اگر دنیا میں اموات کی شرح کم ہے تو اس کی وجہ قرض خواہوں کی دعائیں ہیں۔
محبت اور قرض کی وجہ سے خودکشی کرنا سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں تو انجوائے کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان وہ ہوتا ہے جسے وقت پر محبوبہ اور قرضہ مل جائے۔ ہر انسان کے دو روپ ہوتے ہیں، قرضدار یا قرض خواہ۔ اگر آپ بےوقوف ہیں تو قرض خواہ بن جاتے ہیں اور عقل مند ہیں تو قرض دار۔
پیسے اگر آسانی سے اور عقل سے کمانے ہیں تو قرض لے لو۔ قرض کے پیسے اور باپ کے کمائے ہوئے پیسے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مؤخرالذکر کو ادا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی مگر گالیاں دونوں میں کھانی پڑتی ہیں۔ یہ اور بات کہ باپ کے منہ سے ماں کی گالیاں سن کر آدمی بدمزہ نہیں ہوتا۔