Mere Waldain
میرے والدین
والدین چلے جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے سر پر سے چھت اڑگئی ہے۔ ان کی دعائیں سایہ ہوتی ہیں جو ہمیں زمانے کے سرد گرم سے نامعلوم انداز سے بچاتی ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں میری امی جان اور اباجان ہمیں چھوڑکر چلے گۓ۔ میں نے ان کی یاد کیلۓ ان کی برسی کی تاریخ یاد نہیں رکھی کیونکہ ان کی یاد اب ہر وقت ساتھ رہنے لگی ہے۔ ہر دن کسی نہ کسی وقت اباجان یاد آجاتے ہیں یا امی جان۔ میں سوچتا ہوں کہ جب وہ دونوں حیات تھےتو اس طرح تو کبھی یاد نہ آتے تھے۔
آج ایک دوست سے بات کررہا تھا تو باتوں ہی باتوں میں اباجان کے کئی قصے سنا ڈالے۔ میرے چند دوست ایسے بھی ہیں جو گفتگو کے دوران مجھے ہی یاد دلادیتے ہیں کہ اس موقع پر جو تم نے بتایا تھا، مجھے تمھاری والدہ کا کہا وہی جملہ یاد آرہا ہے۔
مجھے ہمیشہ سے کوکنگ کا شوق رہا ہے۔ اب تو یہ حال ہوگیا کہ کئی بار سبزی یا دال یا کوئی بھی ڈش اپنی امی کے انداز میں پکاتا ہوں اور بیوی سے کہتا ہوں دیکھو امی مسور کی کھڑی دال اس طرح بناتی تھیں۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ امی کے ہاتھ کا بنا کھارہا ہوں۔ اٹھتے بیٹھتے خیال آجاتا ہے کہ اباجان یہ کہتے تھے۔ اس بات سے منع کرتے تھے۔ دو دن پہلے ایک دوست کو قصہ سنایا کہ اباجان ہر سال پاس ہونے کے بعد مجھے فلم دکھانے سینما ہال لےجاتے تھے اور واپسی پر پوچھتے تھے کہ اس فلم سے تم نے کیا سبق سیکھا؟
امی زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر مجھے ان کی سوچ اباجان سے بھی زیادہ پروگریسیو لگتی تھی۔ میں کالج کے زمانے تک ان کی پلیٹ میں ساتھ کھاتا تھا۔ اپنی الگ پلیٹ میں سالن نکال کر کھانا مجھے اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔
مجھے اب تک ضرورت ہی نہیں پڑی کہ اپنے والدین کا خاص برسی کا دن مناؤں۔ وہ دونوں مر کر میرے اندر زندہ ہوگۓ ہیں۔ رات کو سوتے سوتے کئی بار میرے منہ سے امی جان نکلتا ہے اور یہ کیفیت کینیڈا آنے کے بعد سے ہی ہے۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ میرے آنسو خشک ہوچکے ہیں۔ وقت نے مجھے کافی سڑو اور خشک بنادیا ہے۔ سب کے سامنے میرے آنسو نکلتے ہی نہیں مگر جب میں روتا ہوں تو بہت روتا ہوں۔ آواز نہیں نکلتی مگر آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں۔ اس کیفیت میں بھی بارہا امی اور ابا کی یادیں دہرائی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جیسے امی اور ابا اب میرے پاس آچکے ہیں۔ انھیں میں دیکھ لیتا ہوں۔ ان سے باتیں کرلیتا ہوں مگر انھیں چھو نہیں پاتا۔ مجھے عجیب سا لگتا ہے کہ میں ان کے انتقال کی تاریخ یاد رکھوں۔
ان دونوں کے انتقال کے بعد سے ان کی میری ملاقاتیں اور طرح سے ہونے لگی ہیں۔ بعض اوقات میں ان کے سامنے دس بارہ سال کا بچہ بن جاتا ہوں۔ کبھی کالج جانے لگتا ہوں۔ کبھی یونیورسٹی اور ریڈیو کے زمانے کی باتیں کرنے لگتا ہوں۔ ایک دن تو اپنی شادی کی ساری تقریب میں نے دوبارہ سے امی اور ابا کی موجودگی میں دیکھی۔
منظر کبھی نہیں ڈوبتا۔ یاد کبھی اپنا تاثر ختم نہیں کرتی۔ بس میری ماں اب مجھ سے کوئی نئی بات نہیں کرتی۔ مجھے اباجان کا وہ وقت یاد آتا ہے جب وہ خود بھی نک ٹائی لگاتے تھے اور مجھے بھی نک ٹائی کے ساتھ تیار کرتے تھے۔ یہ سب کچھ مجھ سے کوئی چھین ہی نہیں سکتا سواۓ میری موت کے۔ مجھے اپنے والدین کی برسی منانے سے ڈر لگتا ہے۔ اسی لۓ انھیں میں نے اپنے اندر امر کرلیا ہے۔