Imran Khan Aur Deegar Siyasatdan
عمران خان اور دیگر سیاستدان
میرے لۓ پاکستان کے تقریباً تمام زندہ و مردہ سیاستدان ایک جیسے ہیں یعنی ناپسندیدہ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایشوز کے حوالے سے اپنی تعریف و تنقید لکھتا ہوں۔ عموماً تنقید ہی زیادہ کی ہے۔ عمران حکومت جانے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ عمران کو سپورٹ کرنا چاہیئے سو میں نے کی۔ اس پر کون ناراض ہوا، کس نے کیا راۓ قائم کی میری بلا سے؟
عمران آج کے دور کے دیگر سیاستدانوں میں تھوڑا بہتر سیاستدان ہے یعنی بروں میں کم برا۔ میں کسی کا بھی عقیدت مند نہیں۔ میرا قلم وہی لکھتا ہے جو میرا ضمیر لکھواتا ہے۔ میں سنجیدگی سے بھی گفتگو کرتا ہوں اور زیادہ تر طنزیہ مزاحیہ انداز ہی میرا وتیرہ ہے۔ مجھے لچر انداز پسند نہیں، اپنے لئے نہ دوسروں کے لۓ۔ کسی بھی لیڈر کو کیا اچھا کہنا ہے اور کیا برا اور کس لہجے میں کہنا ہے، یہ میری اپنی پسند ہوتی ہے اور کسے یہ لکھا پسند آتا ہے اور کسے نہیں وہ اس کا اپنا مسئلہ؟
مجھےاچھا لگتا ہے کہ میرے فیس بک فرینڈز میرے لکھے پر دلیل کے ساتھ یا طنزیہ مزاحیہ انداز میں راۓ دیتے ہیں۔ جو پرسنل ہوکر اپنی وحشت مجھ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا لچر انداز اپناتے ہیں انھیں میں دور کردیتا ہوں۔ عمران خان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتا۔ وہ اچھا فائٹر ہے، کسی حد تک پاکستان سے مخلص بھی مگر دیوتا نہیں۔
اس نے پاکستانیوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلۓ اب اس حد تک مذہبی کارڈ کا استعمال شروع کردیا ہے کہ اب اس میں اور فضل الرحمان میں فرق تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔ دو دن قبل عمران نے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے یہ اپیل کی ہے کہ ہر پاکستانی جس ملک میں رہتا ہے اس ملک کے سربراہ کو خط لکھے اور ان سے موجودہ حکومت کی شکایت کرے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ موجودہ حکومت کا ساتھ نہ دیں اور موجودہ حکومت کو حکومت چھوڑنے کا کہیں۔
یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو خود اس بیانیہ کی نفی کررہا ہے جس کے مطابق امریکہ نے سازش یا مداخلت کی تھی۔ اس اپیل کے بعد عمران خان کی سپورٹ میرے لۓ سوالیہ نشان چھوڑگئ ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ عمران پارٹی سیاست نہیں کررہا ہے بلکہ تحریکِ نفاذِعمرانیہ کی مہم چلارہا ہے۔ ہمیں دیوتا یا مسیحا نہیں ایک ترقی پسند مخلص سیاسی لیڈر چاہیۓ جو اپنے وعدوں پر قائم رہے اور جمہوری انداز میں پاکستان کو آگے لےکر چلے۔
ہمیں صبر کا پھل انار، کی صورت میں ملے تو قابل قبول ہے مگر انارکی کی صورت میں ہرگز نہیں۔ قوم کی خدمت کریں، قوم کو اپنا ذہنی غلام نہ بنائیں۔ اگر آپ نے ان ساڑھے تین سالوں میں کچھ نیا سیکھا ہے تو اسے استعمال میں لائیں مگر نوجوانوں کو توڑپھوڑ اور مخالفین کو گالم گلوچ دینے کےلۓ استعمال نہ کریں۔ آپ ساڑھے تین سال میں اچھے منتظم ثابت نہیں ہوۓ نہ ہی زیادہ ایماندار۔
آپ قابل بھروسہ محسوس نہیں ہوۓ۔ آپ کے پاس اچھی حکومت چلانے کےلۓ اب بھی کوئی قابل تعریف ٹیم نہیں ہے۔ میں الطاف کی اسٹریٹ سے پاور سے متاثر ہوا تھا نہ آپ کی اسٹریٹ پاور سے ملک میں بہتری آنے کی امید دیکھ رہا ہوں۔