Dada Ki Kitab Ka Akhiri Nuskha Kho Jaye To Kya Guzarti Hai?
دادا کی کتاب کا آخری نسخہ کھوجاۓ تو کیا گذرتی ہے؟
پوتا شاعری کی ایک کتاب مجھ تک لایا اور بولا "یہ میرے دادا کا مجموعہ کلام ہے جو 1986 میں کراچی سے شائع ہوا تھا"۔
پوتا ابھی خود دادا اور نانا کے رشتے میں ہے۔ اس عمر میں دادا کی شاعری اور ان کے مجموعہ کلام سے یہ لگاٶ مجھے پسند آیا۔ پوتے نے فرمائش کہ کہ آپ اسے پڑھ کر اپنی راۓ لکھ دیں۔
میں نے کتاب لے لی جو ان کے پاس آخری محفوظ نسخہ تھا۔ کتاب کا نام ہے "آئینہ در آئینہ" اور شاعر ہیں جناب سراج اعظمی۔
کتاب پر اس عہد کے کئی ممتاز شعراء ادباء کی راۓ درج تھی۔ میں نے سب سے پہلے راۓ پڑھنی شروع کی۔ بیک ٹائٹل پر پروفیسر سحر انصاری کے لکھے تبصرے میں سے ایک اقتباس: "زندگی میں گرم و سرد، بہار و خزاں، جلال و جمال، دھوپ اور چھاٶں کے جن تضادات کو سراج اعظمی نے قریب سے دیکھا ہے اور جن سے وہ تخلیقی سطح پر متاثر ہوۓ انھیں سراج اعظمی نے شعر کے پیراۓ میں بیان کر دیا ہے۔ ان میں اظہار کا حوصلہ ہے۔ وہ صلیب و دار کے مراحل ہوں یا جادہ سنگ، وہ جدھر سے بھی گزرے ہیں سر اٹھا کر گزرے ہیں"۔
پروفیسر سردار نقوی کہتے ہیں"سراج اعظمی کا احساس زندہ و متحرک ہے۔ ان کے کلام میں جدید اور قدیم کا امتزاج آئینہ در آئینہ نظر آتا ہے۔ "
سرور جاوید نے لکھا "ان کی شاعری کے مطالعے میں قاری سپاٹ نہیں گزرتا بلکہ جگہ جگہ ان کے خوبصورت اشعار اور مصرعوں میں پائی جانے والی سبک روی ذہن کو متاثر کرتی ہے"۔
کتاب کے فلیپ پر چار شخصیات مولانا اصلح الحسینی، تابش دہلوی، پروفیسر مجتبیٰ حسین اور رئیس امروہوی کی راۓ درج ہے۔ ہر ایک نے سراج اعظمی کے اشعار اور ندرت خیالات کو سراہا ہے۔
کتاب 208 صفحات پر مبنی ہے۔ یہ 71 غزلوں اور صرف 3 نظموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے آغاز میں پروفیسر منظور حسین شور، پروفیسر اخلاق اختر حمیدی اور پروفیسر انجم اعظمی کی راۓ بھی شامل کی گئ ہے۔ کتاب کا انتساب حضرت بہار کوٹی مرحوم کے نام معنون ہے۔
سراج اعظمی کا اصلی نام سید سراج حسین تھا۔ اعظم گڑھ یوپی بھارت میں 1928 میں پیدا ہوۓ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ پولیس کی ملازمت اختیار کی تھی۔ آخری وقتوں میں نیو کراچی تھانے کے ایس ایچ او بھی رہے۔ 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ 1947 میں شاعری کا آغاز کیا۔ سراج اعظمی کا پہلا شعر تھا۔
آ گئی ہے سمجھ میں فطرتِ غم
آج ہم کو بھی مسکرانا ہے۔
ان کے چند اشعار جو مجھے بھی اچھے لگے۔
جن کو رونے کی مہلت نہیں دیتی دنیا
ان کے آنسو بھی مرے دیدہ تر سے گزرے
نۓ انساں نے لوحِ زندگی سے
محبت کی عبارت کاٹ دی ہے
اے حشر جلد کر تہہ و بالا زمین کو
گر کچھ نہیں، امید تو ہے انقلاب میں
ہر ایک غم کو ترے غم سے جوڑ دیتے ہیں
ہم اپنی شب میں اجالے نچوڑ دیتے ہیں
ملا جو آج تو کیا کیا نہ رنگ تھے اس میں
وہ ایک شخص جو اکثر اداس رہتا تھا۔
میں اکثر نائٹ جاب کے دوران کتاب ساتھ لے آتا ہوں اور جیسے جیسے وقت ملتا جاۓ تو کتاب پڑھتا رہتا ہوں اور جو راۓ بنی لکھ بھی دیتا ہوں۔ "آئینہ در آئینہ" کئی راتوں تک زیر مطالعہ رہی۔ ایک دن میں اسے دفتر کی دراز میں رکھ آیا۔ تین دن کی چھٹی کے بعد دفتر گیا تو کتاب گم ہو چکی تھی۔ آخری نایاب نسخہ گم ہو جاۓ تو کیا گزرتی ہے وہی مجھ پر اور میرے ہم عمر پوتے پر بھی گزر رہی تھی۔ وہ بھی بےبس اور میں بےبسی کے علاوہ شرمندگی میں ڈوبا ہوا۔ تین ہفتوں میں ہم دونوں نے اس کی کوئی اور کاپی حاصل کرنے کیلۓ کیا کچھ جتن نہ کر ڈالا۔ پوتے نے اپنے گھرانے کے ہر فرد سے معلوم کیا کہ کیا کتاب کا کوئی نسخہ کسی کے پاس ہے؟
میں نے دفتر کی ایک ایک دراز چھان ماری۔ دفتر میں اردو پڑھنے والا کوئی نہیں۔ کسی سے پوچھنا بےکار تھا۔ میں نے آن لائن پی ڈی ایف لائبریری چلانے والوں سے اس کتاب کی بابت پوچھا۔ دو فیس بک فرینڈز کو آفر دی کہ اگر پی ڈی ایف نسخہ مل جاۓ تو میں انھیں معقول رقم بطور شکریہ ادا کرنے کو تیار ہوں۔ پھر دفتر میں کرسمس اور نۓ سال کے ایکسٹرا تحفے تحائف کے بادل چھٹے تو آج مجھے ایک ڈھیر کے درمیان میں سے کتاب مل گئی۔ میں نے ڈھیروں شکر ادا کیا اور فوراً ہی یہ تبصرہ لکھ ڈالا۔
پوتے صاحب سید جاوید انور رضوی جب فیس بک پر یہ تبصرہ پڑھیں گے تب ہی انھیں پتہ چلےگا کہ ان کے دادا کا وہ نایاب تحفہ ان کے ہاتھوں میں جلد واپس پہنچ جاۓ گا۔