Azizan e Girami Azmaish Shart Hai
عزیزان گرامی آزمائش شرط ہے

تقریر ایسا فن ہے جو ہمارے ہاں سیاست دانوں اور مولویوں کے علاوہ تقریباً سب ہی کو آتا ہے۔ ہماری زندگی کی ابتداء اماں ابا کی تقریر سے ہوتی ہے۔ وہ ہمیں تلقین کرتے، سدھارتے اور پچکارتے ہیں۔ ان کی تقریر ان سے زیادہ ان کے اولاد کیلئے ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ کر نہیں پائے یا وہ جو، بن نہ پائے اس کا درد اور سچائی ان کی تقاریر میں سمائی ہوتی ہے۔
تقاریر کبھی اور کسی بھی وقت شروع ہوجاتی ہے۔ تقاریر کا دورانیہ موضوع اور اولاد کی حرکات اور کیفیات پر ہوتا ہے۔ اگر اولاد کچھ غلط کرتے ہوئے پکڑے جائے تو تقاریر کا اختتام تشدد پر ہوتا ہے۔ اگر صرف اخلاقیات کے حوالے سے ہو تو آخر میں گلے لگانا بھی اس "سہم جوئی" کا حصہ ہوتا ہے۔
تقاریر کی دوسری قسم جو گھر سے باہر سننی پڑتی ہے وہ کلاس روم میں اساتذہ کی تقاریر ہوتی ہیں۔ چونکہ اساتذہ والدین کا دوسرا روپ ہوتے ہیں اس لئے ان کی تقاریر میں بھی وہی سوز گداز اور دھمکیاں شامل ہوتی ہیں جو والدین سے ان کی تقاریر میں بوجہ تنگئی وقت بچ جاتی ہیں۔
ان تقاریر کا اثر اور دباؤ کم کرنے کیلئے ذہین بچے دونوں کانوں کی سرنگ کا استعمال بخوبی کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں والدین کے دوست احباب، گھریلو رشتےدار اور پڑوسیوں کی تقاریر بھی بچوں کے قیمتی وقت کے بگاڑ کی وجہ ہوتی تھیں۔
ہم میں سے بہت سے اچھے کھلاڑی خصوصاً کرکٹر یا شاعر، ادیب اور پینٹر اس لئے نہ بن سکے کہ ان کی زندگی کا زیادہ وقت مشفقانہ تقاریر کھا گئیں۔ ہمارے معاشرے میں پینٹر سے زیادہ کارپینٹر کی آؤ بھگت کا رواج ہے کیونکہ کارپینٹر کار خرید سکتا ہے، پینٹر نہیں۔
بقیہ زندگی میں صرف سیاست دانوں اور مذہبی ریاکاروں کی تقاریر سے بلاسبب واسطہ پڑتا ہے۔ یہ سننے والوں سے زیادہ سنانے والوں کے ذاتی مقاصد کی حصول آوری کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ ان میں وہ وعدے اور وعید شامل ہوتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ وعدے معصومین کیلئے اور وعید ہم عصر شیاطین کےلئے۔ ان تقاریر سے بچنا گرچہ بہت دشوار ہوتا اگر روئی سے کان کی ضیافت ممکن نہ ہوتی۔
روئی اور کان کا حسین گہرا ملاپ ہمیں بہت سی مکروہ آوازوں سے بچاتا ہے اور ہم منفیت سے بچ کر اپنی زندگی میں خوش رہ پاتے ہیں۔ عزیزان گرامی آزمائش شرط ہے!

